تہران (این این آئی + اے پی پی + نوائے وقت رپورٹ) ایران کے پارلیمانی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں صدر حسن روحانی کے اعتدال اور اصلاحات پسنداتحادی گروہوں نے پھر میدان مارلیاجس کے بعد اب حسن روحانی کے لیے قانونی سازی میں آسانی ہو جائے گی۔فرانسیسی خبررساں ادارے کے مطابق انتخابات کے 2004 کے بعد کٹر نظریات کے حامل گروہوں کی یہ پہلی ناکامی ہے تاہم ابتدائی نتائج سے معلوم ہوا ہے کہ اس مرتبہ بھی اعتدال پسند قطعی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ الیکشن کمشن کی جانب سے جاری ابتدائی نتائج کے مطابق گزشتہ روز 59 نشستوں کے لیے پولنگ ہوئی، جن میں سے 33 پر روحانی کے سیاسی دھڑے کے امیدواروں نے کامیابی حاصل کی جبکہ اکیس پر کٹر نظریات کے حامل گروہوں کو حمایت حاصل ہوئی۔یوں اصلاحات پسندوں کو 290 والی پارلیمان میں 128 نشستوں پر کامیابی حاصل ہو گئی ہے۔ اس نئی پارلیمان میں روحانی کے مخالفین 124 نشستیں حاصل کر سکے ہیں جبکہ بقیہ آزاد امیدوار ہیں، جو پارلیمان میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے میں اہم کردارادا کریں گے۔الیکشن کمشن کے مطابق ایک کروڑ سترلاکھ ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے اہل تھے اس مقصد کے لیے 21صوبوں میں پولنگ ہوئی جبکہ کئی حلقوں میں پولنگ کے مقررہ وقت میں اضافہ بھی کیا گیا۔ان انتخابات کو ایرانی صدر روحانی کے لیے ایک ریفرنڈم بھی قرار دیا جا رہا تھا۔ ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین حالیہ جوہری ڈیل کے بعد تہران حکومت پر عائد پابندیوں کو ختم کر دیا گیا ہے جبکہ اس کے بدلے ایران نے اپنی جوہری سرگرمیوں کو محدود کرنے کا عہد کیا ہے۔ اس تناظر میں ایران کے حالیہ انتخابات پر مغربی ممالک نے بھی کڑی نظر رکھی ہوئی تھی۔سیاسی مبصرین کے مطابق 2013ء میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہونے والے صدر حسن روحانی نے ایک بڑی کامیابی سمیٹی ہے۔ ان مبصرین نے اس پارلیمانی انتخابات میں کامیابی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ عوام نے روحانی پراعتماد کا اظہار کر دیا ہے۔رواں برس فروری میں ہونے والے پارلیمانی الیکشن بھی عوام کی ایک بڑی تعداد نے روحانی اور ان کے اعتدال پسند حامیوں کو ووٹ دیے تھے، جس کی وجہ سے وہ ان سیاسی مخالفین کے خلاف معمولی سبقت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ یہ بڑی فتح ہے۔پارلیمانی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں اعتدال پسندوں اور اصلاح پسندوں کو پارلیمان میں گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصہ میں پہلی بار اکثریت حاصل ہوئی ہے۔صدر حسن روحانی کے حامیوں نے کل نشستوں سے 42 فیصد جیتی ہیں جو واضح اکثریت سے معمولی کم ہیں‘ تاہم قانون سازی کیلئے کافی ہیں۔ آزاد امیدواروں نے کل 30 فیصدووٹ حاصل کئے ہیں اور ان میں بیشتر اصلاح پسند ہیں۔ بی بی سی نامہ نگار کے مطابق رجعت پسندوں کو ایک چوتھائی سے بھی کم نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ انتخابات کے دوسرے مرحلے میں ان حلقوں میں پولنگ منعقد ہوئی تھی جہاں فروری میں پہلے مرحلے میں کوئی بھی امیدوار 25 فیصد ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہا تھا۔ برطانوی تھنک ٹینک چتہیم ہائوس سے وابستہ ایسوسی ایٹ فیلو ڈاکٹر صنم وکیل کا کہنا ہے کہ آزاد قانون سازوں کی طاقت سے ایرانی سیاست میں مسابقت پیداہو سکتی ہے۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اگرچہ پارلیمانی انتخابات سے ایرانی پالیسیوں میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں متوقع نہیں‘ تاہم یہ صدر روحانی کو معاشی اور معاشرتی اصلاحات کی جانب راغب کر سکتے ہیں۔