یکم مئی محنت کشوں کا عالمی دن ہے امریکہ کے شہر شکاگو میں 1886ء کے صنعتی انقلاب کے بعد محنت کشوں سے غلاموں کی طرح طویل اوقات اور بغیر کسی سماجی تحفظ کے کام لیا جاتا تھا۔ محنت کشوں نے منظم ہو کر ان نا انصافیوں اور استحصال کے خلاف اپنی جانوں کی قربانی دیکر روزانہ آٹھ گھنٹے اوقات کار مقرر کرائے۔ جسے آئی ایل او نے اپنے قیام سال 1919ء میں اپنی پہلی کنونشن منظور کر کے تسلیم کیا بلکہ اپنے آئین میں یہ تحریر کیا کہ دنیا میں پائیدار امن اور سماجی انصاف کی بنیاد پر ہی قائم ہو سکتا ہے جس کے لئے کارکنوں بمعہ تارکین وطن محنت کشوں اورخواتین کے حالات کار کو صحت مند بنانا اور انہیں سماجی تحفظ اور ان کے حق انجمن سازی کا احترام کرانا اور سماج سے بچوں کی مشقت و جبری محنت کا خاتمہ ضروری ہے۔ عالمی سطح پر فلاڈیفیاء اعلانیہ میں دوسری جنگ عظیم کے بعد اس کا اعادہ کیا گیا کہ محنت جنس نہیں ہے اس لئے محنت کشوں کے حقوق کی علمبرداری اور قومی سطح پر احترام کرنا تمام ریاستوں کی ذمہ داری ہے۔ موجودہ حکومت آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تحت کارکنوں کو ضمانت شدہ حقوق اور آئی ایل او کے بنیادی کنونشنوں کی توثیق اور پچھلے سال یورپین یونین سے GSP کے ساتھ باہمی معاہدے کے تحت بھی پابند ہے کہ وہ کارکنوں کے بنیادی حقوق اور ان کی فلاح وبہبود کے لئے اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے ان مقاصد کی تکمیل کے لئے حکومت کو اپنی آئینی و عالمی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ محنت کشوں کو بھی اپنی تنظیموں کے اتحاد سے ان حقوق کے حصول کی جدوجہد کو کامیاب کرنا ہوگا کیونکہ حقوق اپنے آپ نہیں ملتے بلکہ انہیں جدوجہد سے حاصل کیا جاتا ہے۔ حکومت پاکستان کا فرض ہے کہ وہ قومی اقتصادی خود کفالت کی پالیسی اپنا کر قومی وسائل عیش و عشرت پر خرچ ہونے کے بجائے ملک میں بے روزگاری، جہالت، غربت اور سماج میں بے پناہ اونچ نیچ دور کرانے اور سو سال سے زیادہ فرسودہ مزدور قوانین میں ترقی پسندانہ ترامیم اور انہیں آئی ایل او کنونشن نمبر 81 کے تحت آزادانہ لیبر انسپکشن مشینری سے موثر عمل در آمد کرائے اس وقت لاکھوں محنت کشوں کے لئے لیبر قوانین پر عمل در آمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ محکمہ محنت میں صرف 579لیبر انسپکٹر ہیں۔ اسی وجہ سے کارکنوں کو کنسٹریشن، مائنز، ٹرانسپورٹ، بجلی، کیمیکل، انجینئرنگ میں کام کرتے ہوئے آئے دن المناک حادثات درپیش آرہے ہیں۔ ٹیکسٹائل و دیگر صنعتوں میں غیر محفوظ حالات کار کی وجہ سے کارکن پیشہ وارانہ بیماریوں کا شکار ہیں۔ لیبر قوانین میں کم از کم اجرت اور اوقات کار، صحت مند حالات کار اور سوشل سیکورٹی کے تحت میڈیکل سہولتوں کی فراہمی کے قوانین پر عمل در آمد نہیں کیا جاتا ہے۔ انڈسٹریل و کمرشل اداروں کے قانون کے تحت پچاس سے کم کارکنوں کی بنا پر صنعتی اداروں اور بیس سے کم کمرشل اداروں پر قانون نافذ نہیں ہوتا جس کی تعداد 80 فیصد ہے۔ ان قوانین پر عمل در آمد کرانا حکومت کے لئے لازمی ہے جس سے صحت مند حالات کار سے صنعتی کارکردگی میں بھی اضافہ ہوگا۔ حکومت کو آئی ایل او کنونشن نمبر 144 کے تحت سہ فریقی لیبر کانفرنس منعقد کر کے فرسودہ لیبر قوانین اور کارکنوں کی فلاح و بہبود کے لئے باہمی مشورہ سے ترقی پسندانہ لیبر پالیسی کا اعلان کیا جائے جو کہ قومی سطح پر کئی سالوں سے یہ کانفرنس منعقد نہیں کی گئی مہنگائی کے مطابق کارکنوں کی اجرتوں و پنشن میں اضافہ کیا جائے جبکہ صنعتی محنت کشوں کو بڑھاپے کی پنشن صرف پانچ ہزار روپے مل رہی ہے۔ حکومت کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ قومی مفادعامہ کے اداروں کی آئی ایم ایف و ورلڈبنک کے دبائو پر نجکاری کرنے کی بجائے اس میں سیاسی مداخلت بند کر کے پیشہ وارانہ دیانت دار و اہل انتظامیہ کے تقرر اور کارکنوں کی جائز حوصلہ افزائی سے اس کی کارکردگی میں اضافہ کرے۔ پاکستان میں محنت کش یوم مئی کے موقعہ پر ان مطالبات کی حمایت میں آواز اٹھاتے ہیں ساتھ ساتھ ملک میں دہشت گردی کی لعنت کے خاتمہ کو شکست دینے کا اعلان کریں گے جو کہ انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان مقاصد میں کامیاب فرمائے۔ آمین!