یکم مئی کو مزدوروں کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن مزدوروں کی مختلف تنظیمیں جلسے جلوس اور ریلیوں وغیرہ کا انعقاد کرتیں ہیں۔ جن کا مقصد ان کو ان کے حقوق سے آگاہ کرنا اور ان کو یہ احساس دلا کر کہ کسی بھی معاشرے میں اور اس کی معیشت میں ان کا کتنا اہم کردار ہے ان میں ایک احساس تفاخر اور احساس ذمہ داری پیدا کرنا ہے-پاکستان کی لیبر پالیسی 1972ء میں جب بنائی گئی تو اس کا مقصد تھاکہ مزدوروں کے لئے سوشل سکیورٹی نیٹ ورک بنایا جائے۔ اولڈ ایج بینفٹ سکیمیں بنائی جائیں اور مزدوروں کی بھلائی کے لئے فنڈ کا اجراء کیا جائے۔ اتنے سال گزر گئے اس پالیسی کو بنے ہوئے لیکن اس پر خاطر خواہ کام نہیں کیا گیا -یہی وجہ ہے کہ آج بھی ہمارے ملک میں یہ طبقہ بہت سے مسائل کا شکار ہے اپنے حقوق سے آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے یہ لوگ بہت ہی دردناک زندگی گزارنے پر مجبور ہیں -حکومت کو بھی چاہیے کہ ان اداروں کو فعال کرے جو اس مجبور اور بے کس طبقے کی بھلائی کے لئے بنائے گئے تھے-معاشرے میں بھی لوگوں کو محنت کی عظمت سے آگاہ ہونے کی ضرورت ہے -ہم اس معاشرے میں رہتے ہیں جہاں پر کام کرنے والے کو کمی یعنی کمتر سمجھا جاتا ہے -لہذا کمتر کے حقوق بھی کمتر ہونگے-اس سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے -بڑی عام سی مثال ہے کہ ہمارے گھروں میں صفائی کرنیو الے اور ہمارے گردونواح کو صاف رکھنے والے ہمارے زندگیوں میں کتنے اہمیت کے حامل ہونے چاہیے اور ہماری سمجھ بوجھ کا یہ عالم ہے کہ ہم ان کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں کیا وہ ہمارے طر ف سے عزت اور مناسب معاوضے کے حق دار نہیں کیونکہ وہ جو کام کر رہے ہیں وہ بہت اہم ہے-یہی حال باقی اس در جے کے کاموں کا ہے نہ ا ن کو ہمارے معاشرے میں مناسب مقام دیا جاتا ہے اور نہ ہی ان کا مناسب معاوضہ ادا کیا جاتا ہے -ایک اور مسئلہ جو پاکستان میں ظلم کی حد تک بڑھ چکا ہے وہ ہے چائلڈ لیبر کا -ماں باپ اپنی غربت اور افلاس کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے بچوں کو ایسے کاموں میں لگا دیتے ہیں جو ان معصوموں سے تعلیم کا حق تو چھینتے ہی ہیں ساتھ ہی بچپن کی تمام خوشیاں بھی چھین لیتے ہیں اور بعض اوقات تو انہیں اپنی زندگیوں سے ہی ہاتھ دھونے پڑتے ہیں -پاکستان میں کچھ مزدور مزدوری نہیں غلامی کر رہے ہیں جیسے بھٹوں وغیرہ پر کام کرنے والے اور کچھ زمینداروں اور وڈیروں کے آگے کام کرنے والوں کی زندگیاں شاید غلاموں سے بھی بد تر ہیں -جہاں پر ان مجبوروں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھا کر انہیں غلامی پر مجبور کر ردیا جاتا ہے یہ بے چارے کسی بھی قسم کے حق کو حاصل کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے اور ایک لا چار اور بے بس زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں -ہمارے نبیؐ کی تعلیمات کا اہم حصہ مجبوروں اور لا چاروں سے وابستہ ہمارے فرائض کی ادائیگی پر مشتمل ہے -اس ضمن میںنصیحت کی گئی ہے کہ مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دو -کتنی گہرائی ہے اس فرمان میں کہ مزدور کی مزدوری میں کمی کرنا تو دور کی بات ہے اس میں ذرہ برابر بھی تاخیر نہ کی جائے -اس سلسلے میں مجھے پاکستان کے کئی اداروں سے یہ شکایت ہے کہ وہ کئی کئی مہینے اپنے کارکنوں کی تنخواہیں ہی ادا نہیں کرتے‘ اتنے سارے لوگوں کو پریشانی میں مبتلا کر کے یہ ادارے اپنے لئے بہتری کی توقع کیسے کر سکتے ہیں۔مزدوروں کے لئے بنائے گئے حکومتی اداروں سے بھی درخواست ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنا خاطر خواہ کردار ادا کریں اور اس پسے ہوئے طبقے کو وہ حقوق تو دیئے جائیں جو 1972ء کی لیبر پالیسی میں مختص کئے گئے تھے۔ ان کی سوشل سکیورٹی کے ادارے کو زیادہ فعال کیا جائے۔ اولڈ ایج بینفٹ سکیمیں اور ان کے بھلائی کے لئے فنڈز کا اجراء کیا جائے۔ یہ طبقہ تعلیم کی کمی کی وجہ سے بہت پسماندہ اور پسا ہوا ہوتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کے بچوں کی تعلیم کے لئے خاطر خواہ انتظامات کئے جائیں تا کہ ان کی آنے والی نسلیں ان سے بہتر زندگی گزار یں۔ صحت کے حوالے سے بھی یہ بہت برے حالات کا شکار ہوتے ہیں۔ اکثر اس کلاس میں اوسط عمر بہت کم ہوتی ہے اس کی وجہ کچھ آگاہی کی کمی ،کچھ ان کے معاشی حالات اور کچھ ان کی مزدوری کی نوعیت بھی ہے۔ ارباب اختیار کو چاہیے کہ اس طرف بھی توجہ دیں۔ مزدور یا محنت کرنے والا شخص ہمارے معاشرے کابہت اہم اور بہت کمزور طبقہ ہے ہمیں چاہیے کہ ہم اس کے حالات کو بہتر بنانے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں۔
مزدوروں کا دن
May 01, 2016