”ہماری عدلیہ پاس ہوگئی ہے“

ابھی ہندوستان کی جنگ آزادی نے زور نہیں پکڑا تھا۔ آگ سلگ ضرور رہی تھی۔ انیسویں صدی کی تیسری دہائی ختم ہونے والی تھی۔ شوکت تھانوی نے افسانہ”سودیشی ریل“ لکھا۔ اس ایک افسانہ نے اسے صف اول کارائٹر بنادیا۔ سودیشی کا مطلب اپنے دیش، وطن، ملک کا ہونا ہے۔ اس افسانہ میں بتایا گیا کہ آزادی ملنے پر ہماری ریلوے کا نظام کیا ہوگا؟ایک مسافر ریلوے اسٹیشن پہنچتا ہے۔ وہاں اسے پتہ چلتا ہے کہ دیش انگریز راج سے آزاد ہوچکا ہے۔ سوانڈیشن ریلوے بھی بدیشی ریل بن چکی ہے۔ یہیں سے افسانہ شروع ہوتا ہے۔ ساری داستان ایک جملے میں یوں جھلکتی ہے۔”گاڑی چل نہیں رہی تھی کہ ایک ہندو بازار کوئلہ خریدنے گیا ہوا تھا“۔یاد رہے اس زمانہ میں ایندھن کے طورپر کوئلہ ہی استعمال ہوتا تھا۔ مزے کی بات ہے کہ شوکت تھانوی بھی پاکستان ریلوے کا وہ حال نہیں لکھ پایا، جس حال تک ہم نے اسے لاپہنچایا ہے۔ پھرآزادی مل گئی۔ ہندوستان آزاد ہوگیا۔ بٹوارہ بھی ہوگیا۔ دنیا کے نقشے پر دو آزاد ملک دکھائی دینے لگے۔ آزادی کی پوری قیمت چکائی گئی۔ خون کی ندیاں بہنے لگیں۔ پنجابی شاعرہ امریتا پریتم نے وارث شاہ سے مخاطب ہوکر نوحہ لکھا۔’اج آکھاں وارث شاہ نوں‘۔ ادھر ہمارے قدرت اللہ شہاب نے ”یاخدا“ لکھ کر لکھ دیا کہ بندہ زیادہ سے زیادہ کتنا گھٹیا، بے رحم، بے حس اور ظالم ہوسکتا ہے۔ ہم اپنے لیڈروں کو روتے ہیں۔ قدرت اللہ شہاب نے سیاسی کارکنوں کو سارا کچا چٹھا بیان کردیا ہے۔ بصد خرابی ملک چلتا رہا کہ اللہ والے کہتے ہیں کہ اسے اللہ نے ہی بنایا ہے اور اللہ ہی اس کا نگہبان ہے۔ خاصی سوچ بچار کے بعد نسیم حجازی نے اس ملک کے سار ےمسائل کا علاج”سفیدجزیرہ“ میں یوں رقم کیا۔’لوہے کو لوہا ہی کاٹتا ہے‘ سوچوروں ڈاکوﺅں کوجیلوںسے رہائی دےکر حکومت انہی کے سپرد کردی جائے۔ چوری چکاری کے یہ ماہر لوگ چوری چکاری کی روح سے واقف ہیں۔ یہی ان پر قابوپاسکیں گے۔ اب1985ءکے غیر جماعتی انتخابات آتے ہیں۔ جنرل ضیاءالحق نے بڑے تردو سے برادری ازم کا گڑا مردہ گہری قبر سے باہر نکالا۔ بھٹو نے اسے بہت نیچے دفن کردیا تھا۔ آخر اس میں زندگی کی کوئی رمق تو ہوگی۔ جو یہ جھٹ سے اٹھ بیٹھا۔ تھوڑے سے دوا دارو اور ٹانک سے صحتمند، ہٹا کٹا دکھائی دینے لگا۔پہلے بدمعاش الیکشنوں میں بہت پیچھے چھپ چھپاکر سیاسی جماعتوں کی مدد کیا کرتے تھے۔ معززین انہیں اپنے ڈیروں پر کب بیٹھنے دیتے تھے۔ اب یہ برادری کے نام پر کھلم کھلا خود ہی امیدوار بن بیٹھے۔ جیت بھی گئے اور اسمبلیوں میں پہنچ بھی گئے۔ سیاست میں دھڑا دھڑ روپیہ آگیا۔ اب تو ہمارے سونے کی گھڑیوں کے حوالے سے شہرت رکھنے والے وزیراعظم گندم کی کٹائی کا افتتاح بھی سونے کی درانتی سے کرنا پسند فرماتے ہیں۔ ہماری سیاست میں کامیابی کا دروازہ نئی بی ایم ڈبلیو گاڑی کی نئی نکور چابی سے کھولنے کی روایت پہلے سے ہی موجود ہے۔ پھر سیاست میں کامیابی کا درواہ نئی بی ایم ڈبلیو گاڑی کی چابی سے کھولا گیا۔ معروف ہندوستانی رائٹر ارون دتی رائے نے اپنے تازہ مضمون میںبرصغیر پاک وہند کی سیاست کی پوری تصویر کشی یوں کی ہے:”جدید جمہوریت کا بحران بہت سنگین ہوگیا۔ آزاد انتخابات، آزاد صحافت اور آزاد عدلیہ کے معنی بہت چھوٹے ہوگئے ہیں۔ کیونکہ آزادی منڈی کی معیشت نے ان کو ان اجناس میں منتقل کردیا ہے جو زیادہ بولی لگانے والوں کو فروخت ہوتی ہیں“۔ اب لوہے کا ہندوستانی تاججر سجن جندل اتنا طاقتور ہے کہ اسے پاکستان میں کہیں پہنچنے میں کوئی رورک ٹوک نہیں۔ اس نے پاکستان پہنچ کر کہاں کہاں جانا ہے؟ اپنی ضرورت وہی خوب جانتا ہے۔ تازہ خبر یہ ہے کہ ادھر پاکستان کی سیاست بی ایم ڈبلیو کی چابی سے دس ارب روپوں تک پہنچ گئی ہے۔ عمران خان نے قوم کو بتادیا ہے کہ اسے اپنا منہ بند رکھنے کے صلہ میں 10ارب روپے رشوت کی آفر ہوئی ہے۔ اس پر پی ٹی آئی کا ایک کارکن لمبی آہ بھر کر بولا۔”اس آفر سے اندازہ لگائیں کہ ہمارے گھ رسے کتنا مال چوری ہوتا رہا ہے؟“ عمران خان سے ”وچلے“بندے کا نام پوچھا گیا۔ جرات مند عمران خان نے ڈنکے کی چوٹ پر بتادیا ہے کہ اس بندے کا نام عدالت میں بتادونگا۔ پہلے مجھ پر مقدمہ تو چلاﺅ۔ انہوں نے اس بندے کی2ارب روپے کمیشن بھی بتادی۔ اسے یہ کمیشن اس سودے کی تکمیل پر ملنی تھی۔ اس بندے نے کیا کیا منت ترلہ نہیں کیا ہوگا کہ خاں صاحب! آپ کو تو روپوں کی قدرہی نہیں، میرے ”حق حلال“ کے دو ارب روپے کیوں مروارہے ہو؟“ نبیل گبول نے سوال اٹھایا کہ اڑھائی مرلوں میں رہنے والا فیصل آباد کا شیر علی اربوں روپوں کی جائیداد کا مالک کیسے بن گیا؟ بھئی! ایک شیر علی کا کیا پوچھتے ہو؟ سیاست میں جو آیا بس نہال ہوگیا۔ پیدل سواری سے یکدم لینڈ کروزرسواری۔ بس ہرطراں سے ستے ای خیراں‘۔ ان سے ملیے۔ یہ ہیں سیالکوٹ سے خواجہ آصف صاحب۔ یہ آج کل وفاقی وزیر ہیں۔ کبھی کبھی متبادل وزیراعظم کے طور پر بھی ان کا نام آجاتا ہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ1980ءتک یہ عمان کے ایک بیان میں ملازم تھے۔ ادنی سے ملازم ہونگے تبھی بینک ملازمت کے دوران اپنی اہلیہ کےلئے ویزہ پلائی نہیں کرسکے تھے۔ تنخواہ جو بہت کم ہوگی۔ لیکن آج کل اربوں میں کھیلتے ہیں۔ سیاست چیز ہی ایسی ہے لیکن اب موسم بدل رہا ہے۔ اچھی اچھی خبریں سننے میں آرہی ہیں۔ عمران خان نے آصف علی زرداری کے زیر قبضہ ایک لاکھ ایکڑ کا ذکر کیا ہے۔ لو اور سنو! خواجہ سعد رفیق سندھ میں جاگیرداری کے خلاف بول رہے ہیں۔ ایک مسلم لیگی کا جاگیرداری کے خلاف بولنا کوئی چھوٹی بات نہیں۔ چند برس پہلے کا واقعہ ہے۔ گوجرانوالہ سیشن کورٹ میں نئی بلڈنگ کا افتتاحی تقریب تھی۔ سینئر سول جج کی عدالت میں ایک میز”لڈوپیڑوں“ سے بھری پڑی تھی۔ سیشن جج ریاض الحسن نقوی اپنے ججوں کے ہمراہ ایک جانب کھڑے تھے۔ میں نے پوچھا حضور لڈوپیڑوں کا انبار بتاتا ہے کہ جیسے جج پاس ہوگئے ہوں۔ کیا جج واقعی پاس ہوگئے ہیں؟ مجھے اس وقت پوچھے ہوئے اپنے سوال کا جواب سپریم کورٹ سے20اپریل کو ملا ہے۔ یہ تاریخی فیصلہ کیا ہے؟ اے پاکستانیوں! اس میں تمہارے غور کرنے کو بہت کچھ موجود ہے۔ سنو! دو جج بہت تگڑے نکلے۔ انہوں نے وقت کے حاکم سے برملا کہہ دیا۔ تم صادق وامین نہیں ہو۔ یہ دونوں بہادر جج جسٹس کا رنیلکس،جسٹس کیانی اور جسٹس صمدانی کی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں۔ باقی تین جج کچھ نرم دل واقع ہوئے ہیں۔ میں انہیں کم ہمت لکھنے کی ہمت نہیں پاتا ہوں۔ خشونت سنگھ کو ہندوستانی چیف جسٹس نے اس کے خلاف توہین عدالت کے مقدمہ کی سماعت کے دوران کہا تھا کہ توہین عدالت کے مقدمہ میں سچائی کوئی ڈیفنس نہیں ہوتا۔”اب تینوں نرم خو اور نرم دم جج بولے ہیں کہ کیا انصاف کا سارا بوجھ ہمیں نے اٹھانا ہے؟ ملک میں چھ اہم محکمے اور موجود ہیں۔ آئیں مل جل کر انصاف کا بھاری بوجھ اٹھاتے ہیں۔ ایک اکیلا تھک جائے گا، ساتھی ہاتھ بڑھانا۔ باقی ہم نے سردست میاں نوازشریف کو کوئی کسی قسم کی کلین چٹ جاری نہیں کی“۔ میں قلم ہاتھ میں پکڑے سوچ رہا ہوں کہ ہماری عدلیہ اپنا حصہ ادا کرچکی۔ اب ہماری سول سوسائٹی بھی آگے بڑھے اور اپنے حصے کا بوجھ اٹھائے۔ مجھے برسوں پہلے اپنے پوچھے ہوئے سوال کا جواب مل چکاتھا کہ اب ہماری عدلیہ پاس ہوگئی ہے۔

ای پیپر دی نیشن