اکثر یہ خیال آتا ہے کہ، انسانی حقوق کی بات کرنے والی تنظیموں اور اس کا پرچار کرنے والے لیڈران ؛ کیا اس غریب خاندان کے شبانہ روز سے آشنا بھی ہیں جو دن رات اینٹیں پکاتے ہیں لیکن ان کے پاس کبھی کھانا پکانے کا وقت نہیں ہوتا اور کبھی کھانا پکانے کا وقت ہو تو خوردونوش کی اشیا دستیاب نہیں ہوتیں۔ وہ کام نہ کرے تو بھٹہ مالکان یا زمینداروں اور جابر مالکان کی جیلوں کے دروازے اور صعوبتوں کے دریچے کھل جاتے ہیں۔ کتنی ہی مزدور ماو¿ں کے آنسو خشک ہوجاتے ہیں جب گود میں بچہ دودھ کے لئے بلک رہا ہوتا ہے، اور وہ مزدوری کر کے بھی دو گھونٹ دودھ کمانے کی سزا بھگت رہی ہوتی ہے۔ کسی کو معلوم ہے اس مزدور بیٹے کا دکھ جو سڑک کنارے آنکھیں بچھائے اس شخص کا منتظر ہوتا ہے جو اسے مشقت کے لئے لے جاکر اس کے بوڑھے والدین کی دوا اور شفا کی آس بنے۔ کیا بیتتی ہو گی اس محنت کش پر جب شام کو وہ بغیر مزدوری، بغیر دوا، بغیر کسی امید اور بغیر کسی تعبیر کے واپس لوٹتا ہو گا۔ مایوسی اس کے سینے میں خنجر نہیں گھونپتی ہوگی؟
اس ماں کا تو سوچئے جو اسپرین کی منتظر تھی لیکن اپنے مزدور بیٹے کی اداسی اور مایوسی چھپانے کے لئے اپنا درد پی لیتی ہے اور بیٹے کا درد اپنی ممتا کی چادر میں ڈھانپنے کی ناکام کو شش کرتی کرتی خود ایک دن صبر کی سفیدی سے رنگی سفید چادر اوڑھ کر سوجاتی ہے۔
اے اہل وطن! کیا یہ صبر ہے کہ شکر؟؟ سوال تو یہ ہے کہ:
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
عام بیماری کے درد اور بھوک کے دکھ کی نسبت وہ رنج و الم اور وہ دکھ درد زیادہ کربناک ہے جس نے آخری سانس تک انصاف کا انتظار دیا مگر انصاف نہ دیا ، وعدہ دیا مگر ایفا نہیں ، سیاست دی مگر خدمت نہیں، دھوکا دیا مگر روٹی نہیں! کوئی پوچھے تو سہی اس باپ سے جو اپنی لاش اپنے کندھوں پر اٹھا کر مزدوری کرنے جاتا ہے ، نہ طوفان اسے روکتا ہے نہ تیز دھوپ پوچھیں گے بھی تو جواب ہوگا کہ، آہ و زاری کے طوفان اور بھوک کے سائے سے تپتی دھوپ اسے مقدم ہے۔ کس نے سمجھا ہے اور جانا ہے یہ ،کہ مزدور کی بیٹی کے ہاتھ اس کے باپ چہرے کی زردی اور آنسوو¿ں کی لڑی کے آمیزے سے پیلے ہوتے ہیں، اور اب یہ کیسے کہہ دوں کہ سوہا جوڑا کس لہو کا عکس کندہ کئے ہوتا ہے۔ ان حسرتوں کے خون اور ان خواہشوں کی سرخی کے پس منظروں کو سمجھنے اور سہنے والے ان پیش منظروں سے نہ جانے کتنے دور بستے ہیں؟ کاش ایاز کے صحن سے، محکوم کے در سے اور مزدور کے غریب خانے سے اٹھنے والی یہ فریاد کوئی محمود، کوئی مخدوم اور کوئی خواجہ بھی سنے کہ:
تو ہے سورج تجھے معلوم کہاں رات کا دکھ
تو کسی روز میرے گھر میں اتر شام کے بعد
کوئی یہ بھی تو بتلائے کہ، آج کی مالیاتی اور معاشی اعتبار سے مستحکم بین الاقوامیت میں پاکستان نسبتا بہتر کیوں نہ ہو سکا؟ بنگلہ دیش اور سری لنکا ہم سے آگے، یہ تو کوئی ترقی یافتہ ممالک بھی نہیں۔ کیا ہم اپنے مزدور کا موازنہ پھر ایتھوپیا سے کریں؟۔۔۔۔۔ بین الاقوامی منڈی میں 2014 کے بعد سے تیل انتہائی سستا ہوا، کوکنگ آئل کے نرخ نیچے گئے، ڈالر گرا، سعودی عرب سے تحفہ ملا مگر بجلی کیوں نہ بن سکی؟ مخصوص علاقے بہتر کر دئے گئے ، ملتان جیسے شہر پر بلا ضرورت میٹرو تھونپ دی مگر بجلی نہ دی کہ مزدور مشین پر کھڑا ہو سکے۔جو مرضی بنائیں مگر خالی نمائشی و زیبائشی پراجیکٹس نہیں کہ الیکشن کی زیب داستاں بنے۔ خالی شریانوں کا کیا فائدہ کہ ان میں لہو کی بوند نہ ہو بہنے کے لئے۔ ریکارڈ قرضے اٹھا کر خوشحالی کی باتیں کرتے ہیں کہ ، کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی چال بھول گیا۔ یو ایس ایس آر میں کاریں بھی تھیں اور فلک بوس عمارتیں بھی حتی کہ جدید سڑکیں بھی لیکن مزدور اور معیشت کھوکھلے ہو گئے اور نتیجہ یہ نکلا کہ یو ایس ایس آر ماسکو میں تباہ ہوگیا۔ فیصل آباد اور گوجرانوالہ کی صنعتوں کو بجلی میسر آجاتی تو مزدور شاداں و فرحاں دکھائی دیتا۔ یہ سنہری دور تھا بجلی کی بڑھوتری کا۔ ایک دو مخصوص شہروں کے علاوہ کہیں شیڈول کے مطابق بجلی بند نہ ہوئی بلکہ غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ نے عوام اور مزدور کو بےروزگاری اور بے بسی کی دیواروں میں زندہ چنوائے رکھا۔ مزدور اور کسان کو امریکہ اور برطانیہ سے ڈالرز اور پاو¿نڈز نہیں آتے۔ مزدور کو تو یہاں کی کمپنیاں اور فیکٹریاں چلتی چاہئیں، ان بے بسوں اور بے کسوں کی تو کوئی آف شور کمپنیاں یا سٹیل اور شوگر ملیں نہیں!
زیبائشی اور جعلی ترقی شوز پر توانائیاں مرکوز رہیں مگر نیلم جہلم پراجیکٹس، نندی پور پاور پلانٹس وغیرہ کو وہ توجہ نہ مل سکی جو ضروری تھی، میانوالی کے پڑوس میں چشمہ بیراج سے متصل پاور پلانٹ کا افتتاح کر ڈالا ، جو 1994 میں بھی ہوا۔ بن سوچے سمجھے شمسی توانائیوں کے پراجیکٹس کو آندھیوں اور ریگستانوں و سرابوں کے سپرد کردیا۔ آخر سارا ملک میٹرو نما زیبائشوں اور پاناموں و ڈراموں میں الجھ کر رہ گیا۔ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور والا معاملہ ہے۔ آہ! انسانی حقوق کہاں ہیں جس سے مزدور اور کسان استفادہ کر سکیں۔ آئین پاکستان تو کہتا ہے کہ:
"آرٹیکل 9?: فرد کی سلامتی؛ کسی شخص کو زندگی یا آزادی سے محروم نہیں کیا جائے گا سوائے جب کہ قانون اس کی اجازت دے۔"
ذرا مزدور کی سلامتی کا بتادئجئے ہمیں بھی ازراہ کرم؟
آرٹیکل 11?:غلامی بیگار چائلڈ لیبر کی ممانعت؛ 1 - غلامی معدوم اور ممنوع ہے اور کوئی قانون کسی بھی صورت میں اسے پاکستان میں رواج دینے کی اجازت نہیں دے گا یا سہولت بہم پہنچائے گا۔
2 - بیگار کی تمام صورتوں اور انسانوں کی خرید و فروخت کو ممنوع قرار دیا جاتا ہے
3 - چودہ سال سے کم عمر کے کسی بچے کو کسی کارخانے یا کان اور دیگر پر خطر ملازمت میں نہیں رکھا جائے گا
4 - اس آرٹیکل میں مذکور کوئی اس اس لازمی خدمت پر اثر اندار متصور نہیں ہوگا
(الف) جو کسی قانون کے خلاف کسی جرم کی بنا پر سزا بھگتنے والے کسی شخص سے لی جائے یا
(ب) جو کسی قانون کی رو سے غرض عامہ کے لیے مطلوب ہو ؛ مگر شرط یہ ہے کہ کوئی لازمی خدمت ظالمانہ نوعیت کی یا شرف انسانی کے مخالف نہیں ہوگی۔"
یہاں تو مزدور اور ملازم کو مس یوز بھی کیا جاتا ہے جبکہ آئین کا فرمان ہے کہ "آرٹیکل 14: شرفِ انسانی ، گھر کی خلوت؛1- شرف انسانی اور قانون کے تابع ، گھر کی خلوت قابلِ حرمت ہوگی۔
2- کسی شخص کو شہادت حاصل کرنے کی غرض سے اذیت نہیں دی جائے گی۔"
اس پکار کو بالائے طاق رکھنے پر کہاں گریہ زاری کریں:
آرٹیکل 25: "شہریوں سے مساوات
1 - تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں اور قانونی تحفظ کے مساوی طور پر حق دار ہیں۔
2- جنس کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں کیا جائے گا۔
3 - اس آرٹیکل میں مذکور کوئی امر عورتوں اور بچوں کے تحفظ کے لیے مملکت کی طرف سے کوئی خاص اہتمام کرنے میں مانع نہ ہو گا۔"
خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والے مزدور کو تو بہترین دوست کی دستیابی نہیں۔ بلاشبہ و بلا مبالغہ تعلیم بہترین دوست ہے جس کے حصول کے حوالے سے آئیں کہتا ہے کہ، آرٹیکل 25 : "الف تعلیم کا حق؛ریاست پانچ سے سولہ سال تک کی عمر کے تمام بچوں کے لیے مذکورہ طریقہ کار پر جیسا کہ قانون کے ذریعے مقرر کیا جائے مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرے گی۔(آرٹیکل 25 الف کو اٹھارویں ترمیم ایکٹ 2010 نمبر 10 بابت 2010 کی دفعہ 9 کی رو سے شامل کیا گیا۔)"
ذرا غور تو کیجئے: