Door Bell کی آواز پر دروازہ کھولا تو سامنے کیپٹن Fred کھڑے تھے۔ good morning اپنا چشمہ درست کرتے ہوئے انہوں نے کہا۔ کیا میں اندر آ سکتا ہوں کیوں نہیں اندر آئیے میں نے جواب دیا! فریڈرک وہی شخصیت ہیں جو برٹش آرمی انفنٹری میں کپتان رہ چکے ہیں اور جن کا ولایت نامہ میں کبھی کبار ذکر بھی کرتا ہوں۔ کالم پڑھنے کے بعد کبھی کبھی وہ Bi lingual گپ شپ لگانے کیلئے مجھے ملنے ضرور چلے آتے ہیں۔ سابق فوجی آفسر ہیں اور پیرانہ سالی کے باوجود اب بھی اپنا ڈیلی گارڈین خریدنے کیلئے 4 سو میٹر تک کا پیدل سفر وہ ضرور کرتے ہیں میری ان سے چاہت و احترام اور انکی مجھ سے شفقت بھرے روئیے کی بنیادی وجہ 1947 میں معرض وجود میں آئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی وہ منظر کشی ہے جسے وہ اپنے عسکری دور میں قریب سے دیکھ چکے ہیں
سندھرسٹ لہجے میں قیام پاکستان کے بارے میں ان کے جاندار تجزیے چونکہ حقائق اور معلومات سے بھرے ہوتے ہیں اس لئے میں ان سے اور وہ بحیثیت کالم نگار مجھ سے دلی محبت کرتے ہیں۔ فرنٹ روم میں بیٹھتے ہی بولے اخبار خرید کر اپنے فلیٹ کی جانب روانہ ہونے ہی والا تھا کہ تمہارا خیال آ گیا سوچا کہ پاکستان کی تازہ ترین صورت حال اور 8 جون 2017ءکو ہونے والے برطانوی انتخابات کے بارے میں تبادلہ خیال کرنے کیلئے کیوں نہ تم سے ملاقات کرتا چلوں.... آئی ایم سوری! اپنی آمد کی آپ کو پیشگی اطلاع دیئے بغیر چلا آیا۔ فریڈ نے مسکراتے ہوئے کہا! ایسا مت سوچئیے میرے لئے آپ انتہائی قابل احترام ہیں، دنیا کے شدت سے بدلتے سیاسی، سماجی، معاشی اور اقتصادی حالات پر گپ شپ ہونی چاہئیے کہ معلومات شیئر کرنے سے علمی وسعت میں اضافہ ہوتا ہے wonderfull فریڈ نے تعریفی کلمات کہتے ہوئے وقت کا ضیاع کئے بغیر سوال کیا!
یہ بتاﺅ کہ پانامہ کیس کے حالیہ عدالتی فیصلے اور ڈان لیکس کے انکشافات کو کس انداز سے دیکھتے ہو؟ وزیراعظم کی سیاسی پارٹی کی جانب سے مٹھائی Celebration کا آخر مقصد کیا ہے؟ جبکہ عدالت کا حتمی فیصلہ تو جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی مکمل تحقیقاتی رپورٹ کے بعد متوقع ہے۔ مجھے یوں لگا جیسے فریڈ عدالتی فیصلہ کی تفصیلات پہلے ہی اخبار میں پڑھ چکے تھے اس لئے جواب دینا ضروری تھا۔
درحقیقت موجودہ سیاسی حالات میں عدالت کی جانب سے اس نوعیت کے فیصلے کی توقع کی جا سکتی تھی، یہ آپ بھی جانتے ہیں مسٹر فریڈ! کہ دنیا بھر کی اعلیٰ عدالتیں شخصیات کا سیاسی قد کاٹھ کے پیش نظر قانون اور آئین کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے کرتی ہیں اور اس اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے 3/2 ججز نے فیصلہ دیا ہے ہاں یہ درست ہے کہ مغربی ممالک سمیت دنیا بھر میں ہونے والے عدالتی فیصلوں پر اختلافی نوٹ بھی لکھے جاتے ہیں ان پر بحث مباحثے بھی ہوتے ہیں مگر افسوس ہمارے معاشروں میں عدالتی فیصلوں کے ادراک سے قبل ہی لوگ اپنے جذبات کو اس نہج پے لے جاتے ہیں جہاں فیصلوں پر کی گئی چہ مگوئیاں کو روکنا دشوار ہو جاتا ہے اور اس کی زندہ مثال عدالتی فیصلے کے بعد جس طرح مٹھائیاں تقسیم کی گئیں یہ بھی ایک سیاست ہے۔ اسی سیاست کو بعض غیر ترقی یافتہ ممالک میں ”Sweet Politics“ بھی کہا جاتا ہے ایسی سیاست میں حکومت کاری کے ساتھ میٹھی سیاست کو بھی پروان چڑھایا جاتا ہے۔ محض اس لئے کہ عوام کی حقیقی مسائل سے توجہ ہٹا کر انہیں ”منہ میٹھا“ کرنے تک محدود کر دیا جائے تاکہ گھمبیر مسائل کی کڑواہٹ کو وہ سرے سے محسوس ہی نہ کر سکیں رہا معاملہ ڈان لیکس کا تو وہ بھی فیصلہ نہیں آیا اب آئیے قانون کی جانب! آزادی وطن سے لیکر پاکستان میں قانون آج بھی ”آپکا ہی جاری ہے میں نے کیپٹن فریڈ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا! is it ture? فریڈ بولے!
جی ہاں: کیونکہ Prob one pusuce برطانوی جمہوریت ہے ہماری معزز عدالتیں بلاشبہ عوامی مفادات کا نوٹس بھی لیتی ہیں عوام کی بہتری اور فلاح و بہبود کے حق میں ازخود نوٹس لیتے ہوئے عدالتوں نے بہترین فیصلے بھی دیئے ہیں۔ مگر ان فیصلوں کے آگے معاملہ عوام کی مثبت سیاسی سوچ اور قومی شعور کا ہے جس کیلئے جمہوری روایات کی پاسداری کی درست سمت کا تعین کرنا ابھی باقی ہے۔
مجھے آپ کے ایک نقطے پر اتفاق نہیں اس پر بات اگر کی تو طویل ہو جائے گی اس پر پھر کبھی سہی ویسے مجموعی طور پر تمہارے تجزیہ سے میں اتفاق کرتا ہوں اب یہ بتاﺅ کہ اپنے برطانوی انتخابات کو کس تناظر میں دیکھ رہے ہو؟ فریڈ نے withnot sorte کافی کے آخری چند گھونٹ باقی پی رہا تھا سوال کیا: برطانوی سیاست کے خدوخال تو آپ خود 1947ءسے دیکھتے چلے آ رہے ہیں یقیناً مجھ سے آپ بہتر تجزیہ کر سکتے ہیں تاہم برطانوی سیاست کے بدلتے رویے اور حالات سے برطانوی سیاست کا رخ ضرور تبدیل ہوا ہے اب دیکھیں ناں! 8 جون 2017ءکو ہونے والے انتخابات کی اصل تاریخ 2020 تھی مگر Brexit کے اچانک فیصلے سے برطانوی معیشت اور یورپی منڈیوں پر ایسے اثرات مرتب ہوئے جس سے ہنگامی صورت پیدا ہو گئی۔ وزیراعظم تھریسامے کا وقت ہے پہلے انتخابات کروانے کا اعلان گو دیگر سیاسی پارٹیوں کیلئے اطمینان بخش ہے تاہم میرے خیال میں برطانوی وزیراعظم تھریسامے کا وقت سے پہلے انتخابات کروانے کا اعلان سیاسی شطرنج کی ایک ایسی کامیاب چال ہے جس سے برطانوی عوام کی سیاسی سوچ میں ہلچل پیدا ہو چکی ہے۔ اس سیاسی شطرنج کی چال کا ایک پہلو فرانس میں جاری صدارتی انتخابات بھی ہیں جن کے تناظر میں ہی برطانیہ اور امریکہ اپنی آئندہ کی یورپی پالیسیاں مرتب کریں گے اب تک کے مرحلہ وار نتائج میں ایمینول میکرون اور انتہائی دائیں ہاتھ کی دنیا ماری لاپین پہلے مرحلے میں کامیابی حاصل کر چکے ہیں۔
تم یقیناً جانتے ہو گے کہ ”ماری“ دائیں بازو کی وہ صدارتی امیدوار ہیں جو فرانس میں مسلمانوں کے خلاف سخت گیر نظریات کی حامی ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنی کتاب میں ”سب سے پہلے پاکستان“ کے اپنی سیاسی پارٹی کو جس طرح متعارف کروایا ”ماری لاپین نے بھی اسی طرح ”سب سے پہلے فرانس“ کا نعرہ لگایا ہے کیونکہ اسلام بنیاد پرستی کو وہ یورپی یونین سے نجات دلانا چاہتی ہیں فریڈ نے میری توجہ اپنی جانب مبذول کرواتے ہوئے کہا!
ہاں! میں جانتا ہوں مگر دنیا کے بدلتے خارجی حالات میں ایسی تنگ نظری اور منفی سوچ کی اب قلعی گنجائش نہیں کہ مذہبی آزادی اور رواداری سب کا بنیادی حق ہے۔
برطانوی رائے عامہ کے مطابق ٹوری پارٹی کے کامیابی کے اشارے دوبارہ نظر آ رہے ہیں تاہم Brexit کا ایشو ہر ووٹر کیلئے اہم ہو گا جہاں تک لیبر پارٹی کی پالیسی کا تعلق ہے تو لیبر لیڈر کی یہ بھرپور کوشش ہو گی کہ سکائش نیشنل پارٹی سے ان کے سیاسی تعلقات مزید مضبوط ہوں یہ کہتے ہوئے فریڈ اٹھے اور اگلی ملاقات کا وعدہ کر کے اپنے فلیٹ کی جانب روانہ ہو گئے۔