نواب غوث بخش باروزئی لاہورا ٓئے اور آکے چلے بھی گئے، ان کے ساتھ دو تین نشستیں تو میری اپنی ہوئیں اور وہ شہر میں دوسرے لوگوں سے بھی ملتے رہے۔ان سے بہت کچھ سناا ور بہت کچھ پوچھا، اومان کے جاوید نواز بھی ان ملاقاتوںمیں شامل رہے اور ان کی وجہ سے گفتگو کا دائرہ پھیلتا چلا گیا اور مفید باتوں کا بھی پتہ چلا مگر باروزئی صاحب پر فوری طور پر قلم نہیں اٹھا سکا، اسکی کئی ایک وجوہات ہیں ، مگر آج ساری وجوہات کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کے بارے میں لکھنے کا ارادہ کر لیا ہے۔اگرچہ ملک میں سیاسی بھونچال کی کیفیت ہے اورملکی سرحدوں سے باہر کشمیر کے بارے میں ایک بھارتی لیڈر نے کہا ہے کہ وہاںکارپٹ بمباری کی ضرورت ہے ۔میںنہ تو ملکی سیاسی بھونچال کو روک سکتا ہوں اور نہ بھارت کی کارپٹ بمباری کو روکنے پر قادر ہوں،اس لئے باروزئی صاحب پر لکھنے میں عافیت محسوس کر رہا ہوں۔
نواب بارو زئی کی آمد سے پہلے لاہور میں سخت گرمی کا موسم تھا، مگر جب وہ آئے تو بارشیں ہونے لگیں۔ نواب صاحب کو لاہور کی گرمی سے کوئی ڈر لگتا ہے، نہ سردی سے۔ وہ کہتے ہیں کہ کبھی سبی آکر درجہ حرارت دیکھو۔ گرمیوں میں بلاکی گرمی اور سردیوں میں بلا کی سردی ۔
میرا پہلا سوال ان سے یہی تھا کہ سی پیک کا درجہ حرارت کیا ہے، گودار کا احوال کیا ہے اور بلوچستان میں کل بھوشن کیا گل کھلا چکا ہے۔
اس سے پہلے کہ نواب صاحب کوئی جواب دیتے ، جاوید نواز بول اٹھے کہ اومان میںبھی چینیوںنے ایک سی پیک کا منصوبہ شروع کر رکھا ہے جس میں اربوں کی براہ راست سرمایہ کاری کی جارہی ہے مگر پاکستان کے سی پیک میں اربوں کا قرضہ چڑھ رہا ہے۔جاوید نواز نے کہا کہ اس فرق کو اپنے ذہن میں ضرور رکھئے کہ پاکستان کو سی پیک سے کیا ملے گا اور اومان اس کے مقابلے میں کیا حاصل کر چکا ہو گا، جاوید نواز نے مزید کہا کہ پاکستان اور چین کے مابین تجارتی حجم کو بھی دیکھیں اور چین اور ایران کے تجارتی حجم کو بھی دیکھیں ، بلکہ چین اور بھارت کے تجارتی حجم کو بھی دیکھیں۔ یہ باتیں دلوں کوکچوکے لگانے والی تھیں۔
نواب باروزئی نے بات شروع کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اگلے دس پندرہ برس تک بلوچستان اور بالخصوص گوادر میں کوئی نمایاں تبدیلی ہوتے نظر نہیں آتی، کام کی رفتار کو تیز کرنا بھی ممکن نہیں کہ راہداری کا منصوبہ بہت پھیلا ہوا ہے،اور اس میں شامل اس قدر منصوبے ان گنت ہیں جن کی تکمیل کے لئے پیسے کے ساتھ ساتھ وقت بھی درکار ہے، چینی پیسہ بھی لگاتے چلے جائیں تو بہر حال منصوبے کی تکمیل پر وقت لگے گا، حکومت نے گوادر سے چینیوں کے جہازوں کورخصت تو کیا مگر یہ محض علامتی عمل ہے، بندر گاہ ابھی مکمل نہیں ہوئی، نہ گوادر میں لاکھوں چینیوں کے لئے رہائشی سہولیات دستیاب ہیں، ایک ہوٹل چندسو کے لئے کافی ہے، ہزاروں لاکھوں ورکروں کے لئے انفرا سٹرکچر درکار ہے جس کی فراہمی عرق ریزی مانگتی ہے۔خون پسینہ ایک کرنا پڑے گا، پھر عالمی طاقتوں کی مخالفت بھی در پیش ہے، بھارت اس کے راستے میں حائل ہے، چین کو گوادر تک رسائی میںامریکہ بھی حائل ہے اور ایران کے اپنے مفادات ہیں ، ہر چند چین نے بندر عباس اورچاہ بہار پر بھی پوری توجہ مرکوز کر رکھی ہے مگر پاکستان کو پھلتا پھولتا کون دیکھ سکتا ہے۔ سی پیک کی تکمیل سے پاکستان کو بھی بے شمار فوائد میسر آئیں گے جن سے محروم رکھنے کے لئے عالمی طاقتیں متحرک اور سرگرم ہیں۔
بلوچستان میں شورش پرکس حد تک کنٹرول پایا جا چکا ہے، اس سوال کے جواب میں باروزئی صاحب کا کہنا تھا کہ الحمد للہ ایف سی اور فوج نے جانوں پر کھیل کر شورش کو دبا تو لیا ہے مگر یہ کہنا مشکل ہے کہ ا س فتنے سے مکمل طور پرنجات مل گئی ہے۔افغانستان سے بھارتی دہشت گرد کاروائیاں کرتے ہیں، ناراض بلوچی لیڈرز بھی اپنے مفادات کے لئے غیروں کے پٹھو بن جاتے ہیں۔ مگر ان کی نعرے بازی اور پروپیگنڈے سے قطع نظر بلوچستان کی محرومیوں کودور کرنا بے حد ضروری ہے، یہ خطہ ملک کاا نتہائی پس ماندہ حصہ ہے، نہ سڑکیں ، نہ بجلی ہے، نہ گیس ہے، نہ ہسپتال ا ور اسکول ہیں۔ہر وفاقی حکومت نے بلوچستان پر چڑھائی کی۔اور پھر بد قسمتی سے آپریشن ادھورے چھوڑ دیئے گئے اور بیماری پھر سے عود کر آئی۔باروزئی صاحب نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا کہ صوبے کا دارالحکومت کوئٹہ محرومیوں کا منہ بولتا ثبورت ہے، اس شہر کی حالت ناگفتہ بہ ہے، اور اس کی محرومیوں میں بلوچ لیڈروں کا بھی حصہ ہے جنہوںنے کراچی، کابل ، دوبئی، لندن، پیرس میںمحلات کھڑے کئیے مگرا س شہرکو اپنی رہائش کے قابل نہ سمجھا اور نہ بنایا۔نواب باروزئی نے اپنی صفائی دیتے ہوئے کہا کہ ان کا گھر سدا سے سبی میں ہے، کوئٹہ میں بھی ان کا کوئی مکان نہیں ، نہ کراچی میں۔
ایک ٹیڑھا سوال یہ تھا کہ گوادر پر بلوچستان کیسے اپنا حق جتلاتا ہے جبکہ اس علاقے کو وزیر اعظم فیروز خان نون کی وفاقی حکومت نے ایوب خان کے مارشل لا سے ایک دن قبل اومان سے خریدا تھا، اس لحاظ سے یہ وفاقی علاقہ ہونا چاہئے۔
باروزئی صاحب نے جواب دیا کہ بات تو ٹھیک ہے، مگر جب وفاقی حکومت نے اسے اپناعلاقہ قرار نہیں دیا تو پھر اعتراض کیسا، کہنے والے تو کہتے ہیں کہ کراچی کو بھی وفاقی علاقہ ہونا چاہئے تھا، اسلام آباد میں کیا رکھا ہے، ملک کی بندرگاہ، بین الاقوامی ہوائی اڈہ ، اسٹیٹ بنک اور نیشنل بنک کا ہیڈ کوارٹر کراچی ہے ، پاک بحریہ بھی اسی بندر گاہ پر انحصار کرتی ہے۔ یہ سارے ادارے وفاقی ہیں مگر یہ شہر سندھ کا حصہ ہے تو گوادر پر جھگڑا کھڑا کرنے کا کیا فائدہ، وہ بھی ا س وقت جب گوادر کا ابھی ناک نقشہ واضح نہیں ہوا۔
باروزئی صاحب اس وقت وفاقی دارالحکومت میں ہوں گے جہاں ان کی ملاقات شمس الملک اور اقبال چیمہ سے طے ہے، یہ اصحاب کالا باغ ڈیم کے لئے فضا ہموار کرنے میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔اٹھاسی سالہ برکت علی لونا صاحبب بھی اس تحریک کا حصہ ہیں، ملک میں بجلی اور پانی کا قحط ہے اور اس سے نجات پانے کے لئے نئے آبی ذخائر کی اشد ضرورت ہے۔توقع ہے کہ اس قافلے میںنواب غوث بخش باروزئی کی شمولیت با برکت ثابت ہو گی۔
باروزئی صاحب جتنے دن لاہور میں رہے، اواخر بہار کی بارشیں ہوتی رہیں، میرے گھر پر وہ شام کے کھانے پر تشریف لائے تو موسلا دھار بارش کا سماں تھا۔پروفیسر محفوظ قطب صاحب کی سہہ پہر کی چائے کے وقت بھی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھی۔باروزئی صاحب کی آمد ہم سب کے لئے سکون اور راحت کا باعث ثابت ہوئی۔