چیف جسٹس سپریم کورٹ پاکستان میاں ثاقب نثار نے ڈی آئی جی غلام محمود ڈوگر کی جانب سے زیرسماعت ایک کیس میں سفارش کروانے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے داماد کو عدالت میں طلب کرلیا۔
ہم بطور معاشرہ سفارش کلچر کے اس حد تک اسیر ہو چکے ہیں کہ میرٹ کے بجائے شارٹ کٹ کے چکر میں رہتے ہیں۔ سفارش کلچر کی حوصلہ شکنی کم کم ہی دیکھنے میں آتی ہے۔ سفارشیوں کے حوصلے اس حد تک بڑھ گئے کہ ایک ڈی آئی جی چیف جسٹس تک اپروچ کر رہا ہے جس پر خود اس کی سرزنش ہوئی اور چیف جسٹس نے اپنے داماد کو بھی بلوا کر کٹہرے میں کھڑا کر دیا۔ معاشرے میں بگاڑ کی وجہ بے جا سفارشیں بھی ہیں۔ ہمارے ہاں بڑے لوگ اپنے بیٹے بیٹیوں اور دامادوں و دیگر عزیزوں کی نہ صرف سفارش کو اہمیت دیتے ہیں بلکہ ان کے غیرقانونی اقدامات کو تحفظ دیتے اور بے ضابطگیوں کو چھپاتے بھی ہیں۔ چیف جسٹس نے بجا نوٹس لیا جس سے سفارش کلچر کی حوصلہ شکنی ہو گی۔ چیف جسٹس نے گزشتہ دنوں خواجہ سعد رفیق سے بھی سفارش کروانے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔ گزشتہ دنوں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے گاڑی منگوانے کے اقدام پر بھی فاضل چیف جسٹس سپریم کورٹ برہم دکھائی دیئے۔ ان کے ازخود نوٹسز‘ پبلک مقامات کے دوروں اور عوامی شکایات سننے پر کچھ حلقوں کی طرف سے تنقید ہوتی ہے مگر بہت سے اقدامات عوامی فلاح کیلئے ہیں اور یہی انصاف کا تقاضا بھی ہے۔