مینار پاکستان اور پی ٹی آئی کے جلسے

29 اپریل کو پی ٹی آئی کے مینار پاکستان پر جلسہ¿ عام کا گزشتہ ایک ہفتے کے دوران بہت چرچا رہا۔ دراصل الیکشن 2013ءسے پہلے 30 اکتوبر 2011ءکو مینار پاکستان کے سبزہ زاروں میں ہونے والے پی ٹی آئی کے جلسہ¿ عام نے پی ٹی آئی کو تانگہ پارٹی سے ملک کی اہم اور بڑی سیاسی جماعت بنا دیا تھا۔ اس جلسہ¿ عام کے بعد پی ٹی آئی نے عوامی مقبولیت کی سند حاصل کی اور پھر الیکشن 2013ءمیں نہ صرف پی ٹی آئی کو کے پی کے کی حکومت اور پنجاب میں اپوزیشن لیڈر ملا بلکہ قومی اسمبلی میں بھی پی ٹی آئی تیسری بڑی پارلیمانی پارٹی کے طور پر سامنے آئی۔ الیکشن 2018ءسے چند ماہ پہلے پی ٹی آئی نے ایک مرتبہ پھر مینار پاکستان پر قسمت آزمائی کا جوا کھیلا۔ سیاسی حلقوں میں اُن کے اس فیصلے پر کہا گیا کہ 29 اپریل 2018ءکے جلسہ¿ عام کا موازنہ 30 اکتوبر 2011ءکے اُن کے اپنے ہی جلسہ¿ عام سے کیا جائے گا۔ پی ٹی آئی پنجاب وسطی کے صدر عبدالعلیم خان نے عمران خان کو اس چیلنج کو قبول کرنے کا فیصلہ کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اُن کے دست راست شعیب صدیقی سمیت جانباز ساتھیوں جمشید اقبال چیمہ، فرخ جاوید مون، عامر شیخ، نذیر چوہان، فرحت عباس و دیگر ٹیم سر دھڑ کی بازی لگانے کو تیار تھے اور انہوں نے یہ ٹاسک بہت سمجھداری، ذمہ داری اور بہادری کے ساتھ نبھایا بھی حتیٰ کہ عمران خان بذات خود جلسہ¿ عام کے چیئرمین عبدالعلیم خان اُن کے دست راست شعیب صدیقی اور ان کی ٹیم کو داد دئیے بغیر نہ رہ سکے۔ دراصل اللہ نے دولت تو بہت لوگوں کو دی ہے لیکن اسے خرچ کرنے کا حوصلہ اور عمران خان پرجان نچھاور کرنے کی آرزو نے عبدالعلیم خان کو دیگر تمام دولت مندوں میں ممتاز کر دیا ہے۔ اس جلسہ¿ عام میں عمران خان نے لگ بھگ دو گھنٹے کا خطاب کیا اور الیکشن 2018ءکے لئے انتخابی منشور پیش کیا۔ اِس سے قبل کہ ہم انتخابی منشور کو زیر بحث لائیں جلسہ¿ عام 30 اکتوبر 2011ءاور جلسہ¿ عام 29 اپریل 2018ءکا موازنہ کر لیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ 2018ءوالے جلسہ کے موقع پر پی ٹی آئی کی خیبر پختونخواہ میں حکومت ہے جو کہ 2011ءمیں نہیں تھی سو اس کی نسبت اس مرتبہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ پرویز خان خٹک، صوبائی وزراءامین خان گنڈاپور، شوکت یوسفزئی سمیت دیگر وزرائ، مشیران اور حکومتی بزرجمہروں کی فوج ظفر موج سٹیج پر تو سامنے پنڈال میں پشتون بھائیوں کی بہت بڑی تعداد موجود تھی جوکہ خیبر پختونخواہ کے مختلف علاقوں سمیت فاٹا سے آئے تھے۔ دوسرا بنیادی فرق لاہوریوں کا تھا۔ 2011ءمیں سٹیج کے سامنے والے حصے میں وسیع و عریض پنڈال بنایا گیا تھا اور لگ بھگ آدھا سبزہ زار دائیں ہاتھ سبزی منڈی، راوی روڈ کی طرف اور آدھا سبزہ زار بادشاہی مسجد کی طرف قناتوں سے بند کیا گیا تھا جیسا کہ اس مرتبہ بھی نسبتاً زیادہ سبزہ زار پنڈال میں شامل کر کے بند کئے گئے تھے۔ 2011ءکے جلسہ¿ عام میں عمران خان لگ بھگ چار بجکر بیس منٹ پر مینار پاکستان پہنچے۔ اس وقت تک پی ٹی آئی کے پنجاب اور ملک کے دیگر حصوں سے آنے والے کارکنان جلسہ گاہ میں پہنچ چکے تھے۔ شام پانچ سے چھ بجے کے درمیان لاہوریوں کا سمندر مینار پاکستان پر اُمڈ آیا۔ بیورو کریٹس تھے یا سول سوسائٹی کے لوگ فیملیاں بچوں کو اُٹھائے، انگلیاں پکڑے مینار پاکستان آپہنچے۔ اور پھر چشم فلک نے وہ منظر دیکھا کہ جس کا کسی کو گمان تک نہ تھا۔ تمام قناتیں ہٹا دی گئیں اور مینار پاکستان کے سٹیج کے سامنے والے حصے کے سبزہ زاروں کے دونوں سرے راوی روڈ سبزی منڈی کی طرف سے بادشاہی مسجد کی جانب مینار پاکستان کی بیرونی دیواروں تک انسانی سر دکھائی دے رہے تھے۔ سٹیج کے پیچھے اور باہر سڑکوں پر بھی عوام کا جوش و خروش دیدنی تھا لیکن 29 اپریل 2018ءکو یہ منظر ناپید تھے۔ اعلیٰ انتظام کرنا عبدالعلیم خان اور شعیب صدیقی کے بس میں تھا سو انہوں نے کئے لیکن ازخود لاہوریوں کو مینار پاکستان آمد کے لئے راغب کرنا نہ ان دونوں اور نہ ہی اعجاز چودھری، سنیٹر چودھری محمد سرور اور میاں محمود الرشید، دیوان غلام محی الدین سمیت پی ٹی آئی کے کسی اور لیڈر کے بس میں تھا۔ یوں تو یہ سب اپنے اپنے زیر اثر حلقوں سے بندے مینار پاکستان تک لائے،حاجی امداد حسین، میاں جاوید علی، جمشید اقبال چیمہ، ولید اقبال، میاں حماد اظہر، میاں اسلم اقبال، ڈاکٹرمراد راس، حامد خان، فرحت عباس، عرفان حسن، ڈاکٹر شاہد صدیق ، منشا چودھری، اظہر عباس کھوکھر، سردار کامل عمر نے بھی اپنا اپنا حصہ ڈالا لیکن جس طرح پی ٹی آئی کا ووٹر 2011ءمیں ازخود مینار پاکستان کے لئے نکل آیا تھا وہ منظر کم از کم ہمیں تو دکھائی نہیں دیا۔ ہمیں تو پی ٹی آئی کے وہ بہت سے معروف چہرے جو کہ 2011ءکو سٹیج پر تھے اُن میں سے بھی کئی سٹیج پر دکھائی نہیں دئیے۔ چیئرمین عمران خان نے ماضی کی صورتحال اور پی ٹی آئی میں شاہ محمود قریشی کو شمولیت کی دعوت پراُن کے شدید ردعمل اور ان کے عمران خان کو گھورنے جبکہ ایک ٹی وی ٹاک شو میں شیخ رشید احمد کی طرف سے انہیں تانگہ پارٹی کا سربراہ ہونے کے طعنے کا ذکر کیا۔ الیکٹ ایبل کی آج پارٹی میں شمولیت کی لائن لگنے کی طرف بھی انہوں نے اشارتاً ذکر کیا لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا عمران خان الیکٹ ایبل کی بجائے اپنے 1996ءسے ساتھ چلنے والے نظریاتی کارکنوں پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی ٹکٹیں دیں گے؟ یہ ون ملین ڈالر سوال ہے۔جس کا جواب صرف اور صرف عمران خان کے پاس ہے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...