ایک ماہ میں شیخ زید کا لیور ٹرانسپلانٹ یونٹ بحال‘ سرکاری ہسپتالوں کی ایمرجنسیز میں سہولتیں فراہم کی جائیں : سپریم کورٹ

لاہور (وقائع نگارخصوصی)چیف جسٹس آف پا کستان نے ریمار کس دئیے ہیں کہ پنجاب کے محکمہ صحت کا بھی احتساب ہونا چاہئے۔ سپریم کورٹ نے شیخ زاید ہسپتال کے لیور ٹرانسپلانٹ یونٹ کو معیار کے مطابق فعال کرنے کیلئے ایک ماہ کی مہلت دیدی۔ شیخ زاید ہسپتال سمیت تمام سرکاری ہسپتالوں کی ایمرجنسیز میں ایک ماہ میں تمام سہولیات فراہم کرنے کا بھی حکم دیدیا ہے۔ صوبائی وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق، ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹ اتھارٹی کے ڈاکٹر فیصل مسعود سمیت دیگر ممبران پیش ہوئے۔ چیف جسٹس پاکستان نے شیخ زاید ہسپتال کے لیور ٹرانسپلانٹ یونٹ کی بندش پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے چیئرمین شیخ زاید ہسپتال سے استفسار کیا کہ بتایا جائے کہ کیوں لیور ٹرانسپلانٹ بند ہے۔ ڈاکٹر فیصل مسعود نے عدالت کوبتایا کہ ہسپتال میں ٹرانسپلانٹ یونٹ میں 2 اموات ہوئیں اور ہسپتال کا لیور ٹرانسپلانٹ یونٹ معیار پر پورا نہیں اترتا تھا جس پر چیف جسٹس نے خواجہ سلمان رفیق سے استفسار کیا کہ بتائیں خواجہ صاحب یہ کیا ہو رہا ہے، آپ نے ایک ہسپتال کو بہتر کرنے کی بجائے دوسرا ہسپتال بنا دیا؟ جب سے شیخ زاید ہسپتال پنجاب حکومت کے زیر استعمال آیا ہے اس کی حالت ٹھیک نہیں ہوئی، خواجہ سلمان رفیق نے کہا کہ آپ شفقت کی نگاہ سے دیکھیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میں نے شفقت کی نگاہ سے ہی دیکھا ہے مگر ہسپتالوں میں کچھ نظر نہیں آیا، مجھے بتائیں سابق چیئرمین شیخ زاید کی تقرری کس کی سفارش پر ہوئی؟چیف جسٹس نے خواجہ سلمان رفیق سے استفسار کیا کہ ڈاکٹر فرید کس کے دوست ہیں اور انکے پیچھے کس کی سفارش تھی؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا غفلت برتنے والے سرجن اور ڈاکڑز کے خلاف کوئی کاروائی ہوئی؟ ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف کی ہڑتال کے باعث مریض رل جاتے ہیں۔چیف جسٹس پاکستان نے افسوس کا اظہار کیا کہ تباہی پھیر دی ہے۔ ہسپتال کا سنٹر کسی صورت بند نہیں ہونے دیں گے۔ تین رکنی فل بنچ نے شیخ زاید ہسپتال کے لیور ٹرانسپلانٹ سینٹر کی بندش کا نوٹس لیا اور حیرت کا اظہار کیا کہ سنٹر کو کس اتھارٹی کے تحت بند کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے نشاندہی کی کہ الشفاءہسپتال کو مالی فائدہ پہنچانے کے لئے لیور ٹرانسپلانٹ سنٹر ہی بند کر دیا۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ سنٹر کا فرانزک آڈت کروایا تو سب سامنے آ جائے گا۔بیرون ملک سے پڑھ کر آنے والے ڈاکٹر عوام کی خدمت کریں۔ملک نے آپ کو بہت کچھ دیا آپ بھی اب کچھ دیں۔کیونکہ خدمت کے شعبہ میں کمرشلائزیشن نہیں چلتی۔فاضل عدالت نے سنٹر کو فوری طور پر بحال کرنے کی ہدائت کر دی۔فاضل عدالت نے استفسار کیا کہ اگر سنٹر بند ہے تو ڈاکٹر اور دیگر سٹاف کس طرح تنخواہیں لے رہا ہے۔اس طرح بندر بانٹ نہیں ہونے دیں گے۔سپریم کورٹ نے ڈی ایچ اے لاہور سٹی فراڈ کیس کے ملزم مراد ارشد کی ضمانت منسوخی کی درخواست دائر کرنے کی اجازت دے دی۔ ڈی ایچ اے کے وکیل نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے ڈی ایچ اے لاہور سٹی فراڈ کیس کے ملزم مراد ارشد کی درخواست ضمانت منظور کی ہے۔ درخواست گزارنیب نے بدنیتی سے کام لیتے ہوئے مراد ارشد کی ضمانت منسوخی کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع نہیں کیا۔ادھر کمپنیوں کے زرعی آلات اور مشینری بنانے والی کمپنیوں لے مالکان واجبات کی ادائیگی کیلئے پنجاب حکومت کیخلاف شکایت لے کرسپریم کورٹ لاہور رجسٹری پہنچ گیا اور چیف جسٹس سے زرعی آلات کی ادائیگی نہ کرنے پر از خود نوٹس لینے کی استدعا کر دی۔سپریم کورٹ میں پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ میں بھاری تنخواہوں پر افسروں کی تعیناتی سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی۔ میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر عامر یار خان نے عدالت کو بتایا کہ پی کے ایل آئی تاحال تعمیری مراحل میں ہے۔پی کے ایل آئی میں 43 ڈاکٹرز خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پی کے ایل آئی کے سربراہ ڈاکٹر سعید اختر کتنی تنخواہ وصول کررہے ہیں۔ عدالت کو بتایا گیا کہ ڈاکٹر سعید اختر بارہ لاکھ روپے بطور تنخواہ وصول کررہے ہیں۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا ڈاکٹر سعید اختر کی اہلیہ بھی پی کے ایل آئی میں ملازمت کررہی ہیں۔ ڈاکٹر عامر یار خان نے بتایا کہ جی، ڈاکٹر سعید اختر کی اہلیہ 8 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ پر پی کے ایل آئی میں ملازمت کررہی ہیں۔ چیف جسٹس نے پو چھا کہ کیا سرکاری ہسپتالوں میں کسی ماہر ڈاکٹر کو اتنی تنخواہ دی جا رہی ہے۔ چیف سیکرٹری صاحب اور سیکرٹری صحت صاحب، ہم نے ہیلتھ سیکٹر ٹھیک کرنا ہے۔عہدوں کی بندر بانٹ ہم برداشت نہیں کریں گے۔اگر پاکستان میں ٹیلنٹ ختم ہو گیا ہے تو ہمیں آپ بتا دیں۔ باہر سے آنے والے ڈاکٹرز اور مقامی ڈاکٹرز میں یہ امتیازی سلوک کیوں ہے۔ اگر آپ کا فرانزک آڈٹ کرا لیا جائے تو پتہ چل جائے گا کہ بیس ارب میں سے سات ارب بھی نہیں لگا ہوگا۔ ڈاکٹر عامر یار خان نے بتایا کہ پی کے ایل آئی میں تعینات ڈاکٹرز کے پرائیویٹ پریکٹس پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ پابندی کی وجہ سے کسی بھی مقامی ڈاکٹر نے ملازمت کیلئے اپلائی ہی نہیں کیا۔ بیرونی ممالک سے اعلی تعلیم حاصل کرکے واپس آنے والوں کو فلاحی بنیادوں پر کام کرنا چاہیے نہ کہ کمرشل بنیادوں پر۔ چیف جسٹس نے پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ کا دورہ کیا۔ چیف جسٹس نے پی کے ایل آئی میں بھاری تنخواہوں پر بھرتیوں پر اظہار تشویش کیا۔

سپریم کورٹ

ای پیپر دی نیشن