اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) سینٹ اجلاس چیئرمین صادق سنجرانی کی زیر صدارت ہوا۔ اپوزیشن لیڈر نے کہا بجٹ پر بحث ہونی ہے اور ایک وزیر بھی ایوان میں موجود نہیں۔ شیری رحمن نے بجٹ کو شعبدہ بازی قرار دیدیا۔ انہوں نے کہا حکومت کے پاس بجٹ لانے کا مینڈیٹ نہیں، افسوس ایوان بالا کے پاس بجٹ مسترد کرنے کا اختیار نہیں۔ کون سی ایمرجنسی تھی مفتاح اسماعیل کو وفاقی وزیر بنایا، تیس دن باقی ہیں، راتوں رات 3 افراد کو وزیر بنا دیا گیا۔ یہ چاہتے ہیں ان کی پانچوں انگلیاں گھی میں رہیں۔ بجٹ اعداد و شمار کا ہیرپھیر ہے، ہم یہ بجٹ پاس نہیں ہونے دیں گے۔ صرف لاہور کو چمکانے کا منصوبہ چل رہا ہے۔ کسی اور جگہ پر کوئی کام نہیں کرنے دیا جارہا۔ توانائی کے شعبے میں جو بربادی کی گئی اس کا کسی کو پتہ نہیں۔ ملک میں پانی کی قلت ہے۔ چیئرمین سینٹ نے وزیر خزانہ کی عدم حاضری پر برہمی کا اظہار کیا۔ مشیر ریونیو ہارون اختر نے سینٹ اجلاس سے خطاب میں کہا انڈسٹری، زراعت، سروسز معیشت کے تین اہم شعبے ہیں۔ حکومتی کارکردگی سے انڈسٹری، زراعت، سروسز کے شعبوں میں بہتری آئی۔ پہلے چاول کی پیداوار 5.54 ملین ٹن تھی، اب 7.44 ملین ٹن ہوگئی ہے۔ گنے کی پیداوار 2013ء میں 63.7 ملین ٹن تھی، اب 83.1 ملین ٹن ہے۔ کنزیومر پرائس انڈیکس کی شرح پانچ برس پہلے 8 فیصد تھی، اب 3.71 ہے۔ ترسیلات زر 2013ء میں 13 ارب ڈالرز تھیں، اب 20 ارب ڈالرز ہیں۔ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری 3 فیصد سے کم تھی، اب 3 فیصد سے زیادہ ہے۔ سال 2013ء میں زرمبادلہ کے ذخائر 11.8 ارب ڈالر تھے، اب 17 ارب ڈالرز ہیں۔ سال 2013ء میں فی کس آمدن 1333 ڈالرز تھی، اب 2018ء میں 1640 ڈالرز ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی امدادی رقم اب 121 ارب روپے ہوگئی ہے۔ سال 2013ء میں بے روزگاری کا تناسب 6.2 فیصد تھا اب 5.9 ہے۔ قائد حزب اختلاف شیری رحمن نے کہا آج تک عوام کو نہیں معلوم پاکستان قطر سے کس قیمت پر گیس خرید رہا ہے۔ ہم بجٹ کو مسترد کرتے ہیں، سارا بوجھ غریب پر ڈال دیا۔ اب غریب ڈبل ٹیکس دے گا جو ظلم ہے۔ حکومت سب کو لالی پاپ دے رہی ہے۔ وفاقی بجٹ کا سینٹ میں ہم راستہ روکیں گے۔ آڈیٹر جنرل نے 8 کھرب روپے کی بدعنوانی کی نشاندہی کی، اس پر کوئی بات کرنے کو تیار نہیں۔ صرف ایون صدر میں 98 لاکھ روپے روزانہ کس چیز پر خرچ ہورہے ہیں؟ کیا ایوان صدر میں سونے کے سموسے کھلائے جاتے ہیں۔ شیری رحمان نے کہا این ایف سی ایورڈ بغیر بجٹ کا اعلان چیلنج کیا جائے گا۔ وفاقی بجٹ پر صوبوں سے مشورہ تک نہیں کیا گیا۔ آج تک کسی حکومت نے چھٹا بجٹ پیش نہیں کیا۔ مسلم لیگ ن کے ارکان بجٹ سیشن میں کیوں نہیں آئے۔ آئی این پی کے مطابق بجٹ اجلاس میں اپوزیشن اور حکومتی سینیٹرز کی جانب سے عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا گیا، بجٹ پر بحث کے پہلے روز حاضر 53 سینیٹرز میں سے صرف 2سینیٹرز نے بحث میں حصہ لیا، جبکہ 51 سینیٹرز غیرحاضر رہے جن میں اکثریت حکومتی سینیٹرز کی تھی جبکہ چیئرمین سینٹ بجٹ پر بحث کیلئے سینیٹرز سے پوچھتے رہے اور سینیٹرز کی جانب سے عدم دلچسپی پر چیئرمین نے اجلاس (کل) بدھ کی سہ پہر 3بجے تک ملتوی کر دیا۔ شیری رحمان نے بجٹ تحریک پر تندوتیز انداز میں اظہار خیال کا آ غاز کیا۔ اس موقع پر حکومتی بنچوں پر صرف 5سینیٹرز موجود تھے، اپوزیشن لیڈر کی تقریر شروع ہوتے ہی قا ئد ایوان راجہ ظفرالحق اور سینیٹر جاوید عبا سی نے اجلاس سے جانے میں ہی عافیت جانی۔ شیری رحمان نے چیئرمین سینٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جو چند لوگ اجلاس میں مو جود تھے وہ بھی اٹھ کر با ہر جا رہے ہیں۔ چیئرمین نے ارکان سے سوال کیا ۔کوئی بجٹ پر خیالات کا اظہار کرنا چا ہے تو بات کرسکتا ہے تا ہم حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی جانب سے کسی نے بھی بجٹ پر بات کرنے میں دلچسپی ظا ہر نہیں کی۔ سینٹ سیکرٹریٹ کے مطابق مختلف ارکان میں53سینیٹرز ایوان میں آئے۔ سینٹ سیکرٹریٹ کے مطابق مختلف اوقات میں 53 سینیٹرز ایوان میں آئے۔ آن لائن کے مطابق سینٹ اجلاس میں اپوزیشن لیڈر شیری رحمان نے ایوان بالا میں انکشاف کیا۔ ایف بی آر کے چیئر مین طارق پاشا آئندہ ہفتہ استعفیٰ دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا جو بجٹ کیاگیا وہ سب الفاظ کا گور کھ دھندہ ہے۔ ایف بی آر چیئرمین شدید ذہنی کرب میںمبتلا ہیں۔ حکومت نے جلدبازی میں میں بجٹ پیش کیا جس پر وہ سراپا احتجاج ہیں۔ آئی این پی کے مطابق وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے ریونیو ہارون اختر خان نے کہا ہے کہ ملک میں مالیاتی ایمرجنسی لگا نے کا الزام بے بنیاد ہے، معیشت کو سیاست کے ساتھ منسلک نہیں کرنا چاہیے،ایسے منفی دعوئوں سے عالمی برادری کو غلط پیغام جاتا ہے،ملک میں مالیاتی ایمرجنسی 2013 میں لگانے کی ضرورت تھی نا کہ اب،حکومتی اقدامات پر عمل درآمد جاری رہا تو چند سال میں جی ڈی پی کے تناسب میں ٹیکسوں کی وصولی میں مزید اضافہ ہوگا۔ ہارون اختر نے اقتصادی ایمرجنسی کے نفاذ کا مطالبہ مسترد کر دیا۔ سکندر میندھرو نے کہا کہ حکومت کے پاس صرف 34 دن تھے‘ اسے پورے مالی سال کا بجٹ پیش نہیں کرنا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ میں غریبوں کو کوئی ریلیف نہیں دیا گیا بلکہ ان پر بوجھ مزید بڑھے گا اور مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔ بعدازاں سینٹ کا اجلاس بدھ کی سہ پہر تین بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔