اس وقت پوری قوم کو جہلانے یرغمال بنا لیا ہے اور یہ کسی قوم کی تباہی و بربادی کے لئے سب سے زوداثر اور مہلک ہتھیار شمار ہوتا ہے۔ کسی ایک قومی شعبہ میں جہلا کی دراندازی اور پھر وہاں ان کو کھل کھیلنے کی آزادی ہی قومی بربادی کے لئے کافی ہوتی ہے اور اگر دراندازی کر کے شعبہ کی تباہی کی بنیاد رکھنے والے دوسرے شعبوںمیں اپنے ہم خیال پیدا کر لیں یا دوسرے شعبوں میں بھی اس قبیل کے لوگ نمایاں ہو کر سامنے آنے لگیں تو سالوں میں آنے والی تباہی مہینوں میں اور مہینوں میں آنے والی تباہی ہفتوں میں آ جاتی ہے۔ ویسے تو پاکستان کے اداروں کے ساتھ جو کھیل کھیلا گیا اور ہر ادارے کوجو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا وہ نہ کسی سے پوشیدہ ہے اور نہ ہی معروضی صورت حال میں کسی ادارے کو ٹھیک کرنے یا اس کو پہنچنے والے نقصان کے ازالے کی کوئی صورت کوئی امید، اس جانب کوئی سنجیدہ کوشش نظر آتی ہے پھر بھی اگر اداروں کے گرتے معیار میں مختلف اداروں کی فہرست تیار کی جائے تو سب سے پہلے نمبر پر دو ادارے آپس میں دست و گریبان ہوکر سرفہرست دنیا نام لکھوانے کی شعوری یا غیر شعوری کوششوں میں مصروف نظر آئیں گے اور اسی طرح وہ اپنے ادارے کی تباہی کا موجب بن رہے ہیں، گویا دونوں ہی پہلی پوزیشن کے حقدار ہیں۔ دونوں پر ایسے افراد کا قبضہ ہوچکا ہے جن میں سطیحت کوٹ کوٹ کر بھری ہے جنہیں اپنے شعبے اور منصب کی عزت و توقیر کا کچھ احساس نہیں جنہیں اس ذمہ داری کا شاید پتہ ہی نہیں جو انکے اس کردار سے منسلک ہے۔ جن کو جہالت کا مظاہرہ کرنے اور جہالت بانٹنے میں ہرگز ہرگز شرمندگی نہیں۔ جو خود کسی میرٹ کی وجہ سے اس پوزیشن پرنہیں جن کا اس شعبہ کا انتخاب شعوری نہیں جو حادثات کی پیداوار ہیں اور وہاں پہنچ کر جنہوں نے اس شعبے اور اس سے وابستہ ذمہ داری کے بارے میں جاننے کی کوشش بھی نہیں کی۔ میں اگر خود نہ بھی بتاؤں تو بھی پاکستان کے کسی شہری سے پوچھ لیں وہ اس قومی اور ملکی تباہی و بربادی میں سب سے زیادہ سیاستدانوں کو مورد الزام ٹھہرائے گا اور دوسرے نمبر پر میڈیا کے لوگوں کو۔ ممکن ہے کسی سروے میں میڈیا والے نمبر ون ہو جائیں اور سیاستدان دوسرے نمبر پر۔ اسکی وجہ سیاست اور میڈیا پر عملاً دو نمبری کا قبضہ ہے۔ دونوں کی دو نمبری پر الگ الگ گفتگو اس لئے ضروری ہے کہ ایک کالم میں اسے سمیٹا نہیں جا سکتا۔ صحافت کے مقدس پیشے سے میری پچاس سالہ وابستگی مجھے اس شعبہ میں جہالت کے قابض ہو جانے اور پورا کنٹرول سنبھال لینے کے سبب مجبور کرتی ہے کہ پہلے اس شعبہ کے بارے میں لکھوں میڈیا کی تباہی و بربادی اور اسے بے اعتبارا بنانے میں کلیدی کردار اس جنرل مشرف کا ہے جسے شاید اپنے ہی کئے کی سزا مل رہی ہے اس نے ہر ایرے غیرے کو ٹی وی کا لائسنس دیکر اس پر ہر ایرے غیرے کو صبح و شام ’’سخن طرازی‘‘ کی ایسی ’’اپر چونٹی‘‘ دے دی کہ پورا معاشرتی ڈھانچہ تو مسمار ہوا صحافت کا مقدس شعبہ بھی اتنی بری طرح مجروح ہوا کہ اس کے رستے ہوئے زخم لاعلاج ہو چکے ہیں۔ اخبارات کی اہمیت و افادیت کو ٹیلی ویژن چینلوں کی بے مہار اور بے مقصد افزائش نے نہ صرف نقصان پہنچایا بلکہ اطلاع‘ رہنمائی اور تفریح کے سارے اصولوں اور اہداف کو پامال کر کے رکھ دیا اور پھر کالم نگاری کے نام پر ایسے لوگ اخبارات کے صفحات پر قابض ہو گئے جن کے نام سے کسی بھی اخبار میں ایڈیٹر کے نام خط بھی کانٹ چھانٹ کے بغیر نہ چھپ سکتا تھا۔ یہ ان اینکروں کا پرنٹ میڈیا ایڈیشن ہیں اور غیر ذمہ داری اور نامقبولیت کے چلتے پھرتے اشتہارات ہیں۔ جس کا جو جی چاہے لکھے جس کا جو جی چاہے بولے نہ کوئی روکنے والا نہ ٹوکنے والا اور نہ ہی اصلاح کرنے والا۔ ایک معمولی بات جس کو اتنا اچھالا گیا اور اس پر تبصرے ایسے کئے گئے کہ جہالت نے واقعی پورے میڈیا کو اپنی مضبوط گرفت میں لئے رکھا۔ عمران خان نے بلاول کو صاحبہ کیا کہا اینکر چیخنے چلانے لگے۔ اسمبلی میں شور مچ گیا توہین ہو گئی۔ اگرچہ بلاول نے بھی خان صاحب جس طرح ’’بولتی‘‘ ہے کہہ کر عمران کی توہین (اگر یہ لفظ دونوں کی توہین ہیں تو) کر کے حساب برابر کر دیا۔ مجھے ان اینکر حضرات اور کالم نویسوں پر بڑا ترس آیا جو اس نان ایشو کو ایشو بنا کر پانی میں مدھانی چلا کر مکھن نکالنے کی کوشش کرتے رہے۔ اور سب سے زیادہ اینکروں کے اس کلب کے اراکین کی گفتگو سے صدمہ ہوا جو آگہی کے تکبر میں اپنے دوسرے ساتھیوں کی توہین کرتے رہے ہیں۔ ویسے تو اسی کلب کے آگہی کے تکبر میں گرفتار ایک اینکر نے اپنی اسی ’’خصوصیت‘‘ کو ایکسپلائٹ کر کے پی ٹی وی کی سربراہی تک حاصل کر لی۔ میں نے 2008 ء کے انتخابات سے پہلے ایک نجی چینل میں ایک اینکر سے پروگرام کے دوران یہ کہا کہ ذرا اسکی یہ ٹیپ چلا دیں تاکہ میری قوم کو پتہ چل جائے کہ کتنے ذہین لوگ اس شعبہ سے وابستہ ہو چکے ہیں۔ موصوف ن لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف کا انٹرویو کرتے ہیں اور تمہید اس طرح باندھتے ہیں میرا ن لیگ کے سربراہ میاں محمد شریف سے پہلا سوال ہے نواز شریف سہمے اور مودبانہ انداز میں تصحیح کی کوشش کرتے ہوئے اور کہتے ہیں‘ نواز شریف دوبارہ وہی سوال وہی الفاظ اور دوبارہ وہ تصحیح اور وہی انداز اس ذہین اور ’’ہمچو ما دیگرے نیست‘‘ اینکر کو نہ اپنی غلطی کا احساس دلاتا ہے نہ اسکی اصلاح کرتا ہے۔ جو چاہے ٹیپ سن سکتا ہے۔ صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کیلئے ۔۔ اسی کلب کے ایک رکن کی‘ برطانیہ سے آئے ایک مہمان نے اسکے پروگرام میں اسکی اصلاح کرنا چاہی تو تکبر اور رعونت سے کہنے لگے اب یہ ہمیں صحافت سکھائیں گے۔ اور پھر جب ان دو اینکرز کی زبانی صاحبہ کو غیر پارلیمانی سیاست میں بہت بڑے بگاڑ کی ابتدا اور نہ جانے کیا کچھ کہتے سنا تو مجھے احساس ہوا کہ یہ بیچارے یہ بھی نہیں جانتے کہ بلاول کے نانا نے اس بیہودگی کی ابتدا کی تھی کسی نے احمد سعید کرمانی کے بارے میں سوال کیا تو ذوالفقار علی بھٹو نے کہا Who is She اب اس جماعت کا ترجمان جس میں کرمانی صاحب کا بیٹا سینیٹر ہے صاحبہ کہنے کو توہین قرار دیکر اسمبلی میں قرارداد لاتا اور احتجاج کرتا ہے اور اپنے ساتھی کے باپ کی اس سے بڑی توہین بھول جاتا ہے۔ ممتاز دولتانہ اس دور کے معتبر سیاست دان تھے جنہیں بھٹو نے چوہا کہا۔ ائرمارشل اصغر خان کی پاک فضائیہ میں لازوال خدمات اور قوم کی مسلسل خدمات کو نظرانداز کر کے اسے آلوخاں‘ قیوم خان کو ڈبل بیرل خان‘ مولانا مودودی کو ’’پوپ‘‘ اور پھر اسی ذوالفقار علی بھٹو کے بعد میں وزیراطلاعات بننے والے مولانا کوثر نیازی کے ’’شہاب‘‘ میں مولانا مودودی کا سر ایک بہت ہی نامناسب فلمی اداکارہ کے دھڑ کے اوپر سجا کر اس کا فلم میں گانا ’’سن وے بلوری اکھ والیا‘‘ کا کیپشن لگا کر چھاپا۔ یہ زعم آگہی والے اینکر نہیں جانتے تو اس زعم آگہی کی گردان بند کر دیں اور اگر جانتے ہیں تو اس توہین کے ساتھ بلاول کے نانا جان کی توہین کرنے کے حوالے سے اننگ اوپن کرنے کا ذکر ضرور کریں۔ یا کم از کم یہ تو بتا دیں کہ قومی اسمبلی میں کس وزیراعظم نے کس کو پیلی ٹیکسی کہا تھا۔ اگر یہ لحاظ رکھنا ہے تو کس وفاقی وزیر نے اپنی مخالف سیاسی جماعت کی خاتون کو ٹرالی کہا تھا۔ اے زعم آگہی کے مریضو! اس قوم پر رحم کرو نان ایشو کو ایشو نہ بناؤ یا پھر جس شعبے میں بات کرنی ہو اسکے بارے میں مکمل آگہی حاصل کر کے کرو۔!