آج مزدوروں کا عالمی دن ہے اور آج کرورنا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر میں کروڑوں مزدور بے روزگار ہوچکے ہیں ۔آج مزدوروں کے نام پر پیغامات دے کے یا انہیں یہ یاد دلا کے کہ اشرافیہ ان کے دکھ درد کو سمجھتی ہے ہم میں سے بہت سے لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم نے اپنا فرض پورا کر لیا ہے ۔جب حقیقت تو یہ ہے کہ مزدور ہر دور میں جبر کی چکی میں پستا چلا آرہا ہے ۔امریکہ میں مناسب اجرت مانگنے والا ہو یا دنیا کے کسی دوسرے خطے میں اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنا والا ،مزدور کو ہر کہیں طاقتوروں نے کچلنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا ہے ۔اسلام نے مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اسے اجرت دینے کا حکم دے کے یہ بتادیا ہے کہ مزدور کس سلوک کا مستحق ہے لیکن کیا کیجیے وہ پاک جگہ جہاں سے سارے دنیا کے انسانوں ،حیوانوں، چرندوں، پرندوں، درندوں اور حشرات الارض کے حقوق ادا کرنے کا سبق ملتا ہے اس ملک کے آج کے بادشاہوں نے مزدور ں کے ساتھ غلاموں کا سا رویہ اختیار کیا ہوا ہے ۔ہمارے بہت پیارے ملک سعودی عرب میں کام کرنے والے لاکھوں مزدور وہاں کفیل کے غلام بن کے رہنے پہ مجبور ہوتے ہیں ان سے ان کا پاسپورٹ لے کے کفیل جیسے چاہے انہیں مجبور کر لیتا ہے ،چھوٹی چھوٹی غلطیوں کا بہانہ بنا کے ملک بدر کردیا جاتا ہے یا سخت سزاوں کا سزاوار ٹھرایا جاتا ہے ۔پچھلے سال تک دنیا بھر میںمزدوروں کے عالمی دن یکم مئی کے موقع پرہر سال سرکاری اور پرائیویٹ سطح پر ملک بھر میںتعطیل ہوا کرتی تھی اور تقریبات کا اہتمام کیا جاتا تھا، ان تقریبات، سیمینارز اور جلسے جلوسوں میں مزدوروں کے حقوق کیلئے آواز بلند کی جاتی تھی اور اس عزم کا اظہار کیا جاتا تھا کہ مزوروں کو درپیش مشکلات کو کم کرنے اور انکے حقوق کی ادائیگی کی راہ میں جو بھی رکاوٹیں ہیں انہیں دور کیا جائے گا، اسی طرح کے نعروں، وعدوں اور دعووں میں ایک ون گزر جاتا تھا،مزدورں کو سڑکوں پر کھڑا کر کے ان سے نعرے لگوا کے ،فو ٹو سیشن کرواکے صاحب لوگ بیوی بچو ںکے ساتھ شام کو کسی پر سکون جگہ جا کے زندگی کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے اور مزدور شام کو خالی ہاتھ گھر بچوں کے پاس اس مید سے پہنچتا ہے کہ شاید کل کو اچھی مزدوری مل جائے ،شاید کل نعرے لگانے والے ہمارے لیے کوئی بہتر منصوبہ لے کے آئیں اور ہمارے گھر بھی دو وقت کا کھانا بننا شروع ہو جائے۔آج تو مزدور سب سے زیادہ متاثر ہے ۔ہر طرح کا کاروبار بند ہونے کی وجہ سے مزدوری کا حصول ناممکن ہوچکا ہے ۔ہمارے کچھ لوگ شاید کسی بیلچا چلانے والے یا راج مستری کا کام کرنے والے کو ہی مزدور سمجھ لیتے ہیں ،لیکن حقیقت میں ہر وہ انسان مزدور ہے جو کسی فیکٹری ،دکان،سکول،کارخانے یادفتر میں کام کرتا ہے اس لیے مزدوروں کی بات کرتے وقت ان سب لوگوں کی مجبوریوں کا بھی احساس کرنا ہوگا ۔ محض یکم مئی کو یوم مزدوراں منا لینے سے مزدوروں کے مسائل حل نہیں ہوسکے،اس کے لیے مزدوروں کو ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ اور تعلیم صحت چھت اور روزگار کی ضمانت اور تحفظ دینے کی ضرورت ہے۔ لیبر قوانین بھی صرف رجسٹرڈ مزدوروں کی تعداد کو سامنے رکھ کر بنائے جاتے ہیں حالانکہ کھیتوں میں دن بھر محنت کرنے والے، اینٹوں کے بھٹوں پرخون پسینہ ایک کرنے والے، ہوٹلوں اور ورکشاپوں میں کام کرنے والے کروڑوں مزدور ایسے ہیں جن کو کبھی کسی ادارے نے رجسٹرڈ نہیں کیا۔ یہاں مزدورمحنت کش اور کسان کی محنت کا پھل سرمایہ دار اور جاگیردار کھاتے ہیں، المیہ یہ ہے کہ مزوروں اور کسانوں کے حقوق غصب کرنے والا ٹولہ ہی انکی وکالت کی ڈرامہ بازی کرکے انہیں بار بار دھوکہ دیتا ہے۔ اس وقت ملک لاک ڈاون کی حالت میں ہے جس کی وجہ سے کارخانے اور صنعتی یونٹ شدید دباو کا شکار ہیں، کارخانوں اور فیکٹریوں کو تالے لگ چکے، ہزاروں مزدور بے روزگار ہورہے ہیں جس کے اثرات ان سے وابستہ خاندانوں اور زیر کفالت لاکھوں افراد پر پڑ رہے ہیں، عوام کی بنیادی ضروریات تعلیم، صحت، روزگار، چھت اور امن عامہ کا قیام اور جان و مال کا تحفظ فراہم کرنا ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان تمام شعبوں میں حکومت بری طرح ناکام نظر آتی ہے اور ہر شعبہ زبوں حالی کی تصویر بن چکا ہے۔ بے روزگاری مسلسل بڑھ رہی ہے۔ تعلیم سرکاری شعبے سے نکل کر پرائیویٹ سیکٹر میں چلی گئی ہے اور یہ اتنی مہنگی ہے کہ ایک متوسط طبقہ کیلئے اس کا حصول ناممکن ہوتا جارہا ہے۔صحت کے شعبہ کی حالت اس سے بھی زیادہ پریشان کن ہے اور سرکاری ہسپتالوںمیں علاج معالجے سہولتیں ہیں اور نہ آبادی کے حساب سے سرکاری ہسپتال موجود ہیں۔ ہسپتالوں میں مریضوں کیلئے بستر ہیں نہ ادویات دستیاب ہیں۔بڑے سرکاری ہسپتالوں میں ایک ایک بستر پر دو دو تین تین مریض پڑے ہوتے ہیں۔
یوم مئی شکاگو کے ان مزدوروں کی قربانیوں کو یاد کرتے ہوئے منایا جاتا ہے جنہوں نے اپنی جانوں کی قربانی دیکر مزدوروں کے حقوق کی جنگ لڑی۔برسوں گزرنے کے باوجود آج بھی دنیا بھر میں مزدوروں کی جدوجہد جاری ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں آج بھی مزدوروں کی حالت نہیں بدلی۔ پاکستان سمیت جنوبی ایشیا میں مزدوروں کی حالت ویسی ہی ہے جیسے برسوں پہلے تھی۔ حکمرانوں کی طرف سے کئی مزدور پالیسیاں تیار کی گئیں مگر ان پر عمل نہ ہونا تھا اور نہ ہونے کی امید ہے۔ کاغذوں کی حد تک تو مزدوروں کی بہتری کے لئے بہت سے اعلانات موجود ہیں۔ مگر ان پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ مزدوروں کی تنخواہ مقرر کرنے، انہیں صحت و تعلیم کی سہولتوں کے اعلانات کے باوجود ان پر عملدرآمد کی رفتار نہایت سست ہے۔ مزدور کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ۔لاک ڈوان اب سمارٹ لاک ڈاون کی شکل اختیار کر رہا ہے اور بہت سی بند فیکٹریاں،کارخانے اور دوسرے کاروبار آہستہ آہستہ کھل رہے ہیں مگر ایک طرف بے روزگاری حد سے بڑھ چکی ہے تو دوسری طرف مہنگائی نے غریبوں اور مزدوروں کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے۔ حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ ایسے حالات پیدا کریں کہ کوئی مزدور بے روزگار نہ ہو اور انہیں صحت، رہائش اور تعلیم کی سہولتیں بھی دستیاب ہوں کیونکہ مزدور خوشحال ہوں گے تو ملک بھی خوشحال ہو گا۔