"Well done Prime Minister"

May 01, 2020

مسرت قیوم

قومی تاریخ کا ایک منفرد دن ۔ اچھوتے لمحات۔ پہلی مرتبہ حاکمِ وقت ۔ برقی چینلز کے اینکر پرسنز۔ قوم کی اکثریت نے ایک ہی وقت میں دعا مانگی ۔ جید عالم دین "مولاناطارق جمیل "قبلہ نے دُعا کروائی ۔ دُعا کیا تھی ۔ فریاد ۔ مناجات تھیں جو لاکھوں آنکھوں کے آنسوؤں میں آسمان پر پہنچیں ۔ پہلی مرتبہ کوئی حکمران قوم کا احساس لیے بیٹھا اور ٹیلی تھون سے 3"ارب روپے" اکٹھے کر لیے۔کھلبلی تو مچنا تھی۔ وفاقی کابینہ کی منظوری کے بغیر تقرریوں کا نوٹس ۔ اب بات میرٹ پر ہوگی تو آئندہ خلاف ورزی کوئی نہیں کرے گا۔ معاملہ نوٹس سے آگے بڑھنا چاہیے۔ کرپشن کے خلاف طویل جدوجہد ۔ جہاد سے کم نہیں ۔ طاقتور گردنوں کا جیلوں میں پھنسنا ۔ خوبصورت چہرے گرفتار ہوئے تو جیل کی کالی کوٹھڑیاںچمک اُٹھیں ۔ اِس جدوجہد میں اپنے اور غیر کی حد فاصل نہیں ہونی چاہیے۔
پہلا سیاسی لیڈر ۔ جس کی آواز پر" پاور بروکرز "نے کان دھرے اور پہلی مرتبہ غریب ممالک کو وسیع پیمانے کا ریلیف ملا ۔ قرضہ بہت بُری چیز ہے۔ حقیقتاً "کورونا "سے زیادہ بھیانک وبا ۔ لینے والابھی مریض بن جاتا ہے۔ دونوں ہی جکڑ لیتے ہیں ۔ موجودہ حالات دونوں کی تباہی کے خود گواہ ہیں ۔ آپ نے ایک مرتبہ نہیں ۔ سینکڑوں مواقع پر عوامی اجتماعات میں بیانگ دہل قرضہ نہ لینے کا اعلان ۔ وعدہ کیا۔ حلف اُٹھانے کے فوری بعد ۔شاید حالات کا جبر تھا کیونکہ چمن جو اُجڑا ملا تھا اِس یقین کے ساتھ کہ آپ دل سے اِس کے خلاف ہیں ۔ سنہری موقع ہے عالمی اداروں سے ریلیف مانگنے یا ری اسٹچرنگ کہنے کی بجائے مکمل معافی کیلئے باضابطہ ذاتی طور پر رابطہ کریں ۔ آپکی کرشماتی شخصیت اُن کو راضی کر لے گی ۔پہلا لیڈر ۔ جو عام طبقے کی مشکلات ۔ ضروریات ۔ عادات سے آگاہ ۔ لازمی خدمات کے بڑھتے مصارف کے عوام پر پڑنے والے بد اثرات سے واقف۔ جانتا تھا کہ" عوامی قوت" کیا ہوتی ہے۔ اُٹھ کھڑی ہو تو راتوں رات انقلاب آجاتے ہیں۔ دھرنے میں برسر عام اپنے بجلی کے بل جلائے ۔ عوام کو بلز کی ادائیگی نہ کرنے کی اپیل کی ۔" وزیراعظم صاحب" اب حالات اُس دور سے زیادہ گھمبیر ہیں ۔ تب کاروبار کُھلے تھے ۔ اب بیماری کا راج ہے۔ گھروں میں قید۔ سفید پوش طبقہ پس گیا ہے۔ 4ماہ کے بجلی ۔ گیس کے بل معاف کر دیں۔ یہ ریلیف بلا تفریق پوری قوم کو پہنچے گا۔
لمحہ موجود کی تمام فلاحی اسکیموں کے نام بے حد خوبصورت ۔ادبی چاشنی لیے ہوئے ۔ مقاصد۔ لانچ کرنے کی نیت مطابق متاثر کن۔ فوائد؟ یہی ایک لفظ ہے جس کے متعلق حتمی طور پر کچھ کہنا آسان نہیں ۔ بارہا لکھا ۔ سابقہ سکیمیں بُری تھیں نہ مقاصد مگر نتائج تقریباً غیر تسلی بخش۔ وجہ موثر نگرانی کا فقدان ۔ مفید نتائج کے خواہش مندہیں تو ماہانہ آڈٹ کا سخت نظام بنا دیں ۔ یہ کام اُنھی کو سونپ دیں جو اپنی دیانتداری ثابت کر چکے ہیں مزید براں پہلی تحقیقاتی رپورٹس کو فیصلہ کن اقدام بنا دیں ۔ تاخیر در تاخیر شکوک پھیلانے کے علاوہ کچھ نہیں کر دہی۔تازہ ترین "چھوٹا کاروبار اسکیم" معاشی گراوٹ کے فیز میں نعمت سے کم نہیں ۔ پر شنید ہے اور رائے بھی اکثریتی ہے کہ لوگ یہاں سے پیسے وصول کر کے" بیرونی بینکوں" میں جمع کروا کر دوگنا منافع وصول کر کے مقامی چند فیصد شرح واپس کر دیں گے۔ ڈبل فائدہ ۔اُنکے نزدیک۔ ہمارے نزدیک حرام ۔ جناب" وزیراعظم" تاریخ انسانی کے اِس بے بسی ۔ لاچارگی کے بد ترین دُور میں "ہیرو سے سُپر ہیرو" بن جائیں ۔ساری دنیا میں طاقتوںکازعم ۔ دولت کی فراوانی اور غریب کی لٹیا سبھی اوندھے پڑے ہیں۔ کُفری طاقتوں نے بالاآخر مان لیا کہ" اللہ تعالیٰ رحمن ۔ رحیم ۔ کریم" ہی واحد لا شریک اور زمین ۔ آسمان کا اکیلا مالک ہے۔" دین اسلام" کی حقانیت اور حلال ۔ پاکیزہ چیزوں کی افادیت کو تسلیم کرتے دور میں کوئی بھی مخالفت نہیں کریگا۔ "سود" ختم کر دیں۔ کوئی کرے بھی تو پرواہ مت کریں کیونکہ" ریاست مدینہ" میں سودی کاروبار ۔ نظام نہیں تھا نہ ہی تاویلات کہ متبادل کیا ؟ وغیرہ وغیرہ ۔ سنہری موقع ہے اپنے وعدے ۔ خواب کو پورا کرنے کا ۔ "ریاست مدینہ" کاقیام۔
"وزیر اعظم صاحب"۔ پہلے پاکستانی حکمران کہ جن کی باتوں ۔ اقدامات کو نہ صرف عالمی سطح پر سراہا گیا بلکہ نقش قدم بھی بنایا ۔" بلین ٹری منصوبہ" ۔ اِسی منصوبہ کو آگے بڑھاتے ہوئے بے روز گار افراد کے ذریعہ جنگلات۔ زیتون۔ شہد کے درخت لگانے۔ معاشی تنگی اور بے روز گاری ختم کرنے کا پروگرام ۔ یقینا فائدہ مند دیرپا نتائج مرتب کرے گا اگر نگرانی کا موثر انتظام ہو۔ قوانین میں کوئی سقم ہے اور نہ ہی نافذ کرنے والوں کی اہلیت میں کوئی کمی ۔ خامی ہے۔
ہماری قوم کا سب سے بڑا مسئلہ نیت ہے۔ ٹھان لے تو معمولی پڑھا لکھا جہاز بنا لیتا ہے۔ (پچھلے مہینوں کئی علاقوں کی برقی تصویریں سامنے آئی تھیں) ارادہ نہ ہو تو ایک معمولی کلرک فائل روک کر بادشاہ بن جاتا ہے۔ خبر ہے کہ بدعنوانی میں ملوث سرکاری اہلکاروں کو فوری برطرف کرنے کا مسودہ تیار ہو چکا ہے۔ بہتر سمت کی طرف بڑا قدم۔ شروع سے اِس بات کے حامی تھے۔ لکھا بھی کہ معطلی یا تبادلہ مسئلہ کا حل نہیں ۔ جو بھی ملوث ہوا ثبوت مل جائیں تو برطرف کر دیں۔ شکر ہے کہ احساس جاگا۔ اب ضرورت ہے کہ فوری نافذ کر دیں اور کسی دباؤ میں نہ آئیں۔ بغیر مراعات گھر بجھوا دیں۔
ایک وقت تھا ۔ حکومت ۔ اداروں نے مل کر زور لگا دیا ۔ پریشر بڑھایا مگر ایک دوکان بھی بند نہ کروا سکے ۔ بات ہے پچھلے سالوں کی بدترین لوڈ شیڈنگ کی ۔ پہلا دور ہے کہ ریاست کی رٹ تسلیم کی گئی چاہے ساری دنیا کی مثال سامنے ہے مگر ہماری سرشت میں نافرمانی کا مادہ زیادہ نمایاں ہے۔" موسم گرما "کے ابتدائی دن ہیں۔ گرمی بڑھنے کے ساتھ طلب بھی بڑھے گی ۔ رسد چونکہ کم ہے اس لئے حکومت کاروباری اوقات" صبح "8
سے "رات 8 بجے" تک کر دے ۔ مہینہ گزارہ کر کے دیکھ لیا۔ خریدو فروخت چند گھنٹوں میں بھی ممکن ہے اگر ارادہ باندھ لیں ۔ ایک تو فطرت کے اصول کی پیروی سے روز گار میں برکات پیدا ہونگی دوسرا صحت عامہ کی مجموعی صورتحال بھی مثبت ۔ بہتر ہو جائیگی۔ عوام ۔ تاجر سب مان بیٹھے ہیں کہ کاروبار چلے چاہے کچھ گھنٹوں کیلئے ہی سہی اور متذکرہ بالا تجویز تو پورے دن کی ہے مزید براں جرائم کی شرح کم کرنے میں بھی ممدو معاون بنے گی۔
ہماری تاریخ میں کبھی نہیں ہوا کہ بڑھی ہوئی قیمت کبھی کم ہوئی ہو۔ پیٹرول قیمت میں ریکارڈ کمی" نواز شریف صاحب" کے دور میں ہوئی تب کہا گیا کہ دھرنے کا کمال ہے اب جو بھی تھا۔ کم تو ہوئی ۔ موجودہ عہد میں تیسری مرتبہ کمی ہے ۔ افسوس کہ چند پیسے قیمت بڑھنے سے ٹرانسپوٹ۔ اشیائے صرف کی قیمتیں بڑھانے والے قیمتوں میں کمی کرنے پر آمادہ نہیں ۔ یہاں ضرورت ہے ریاستی حکم منوانے کی ۔ ڈپٹی کمشنر اپنے علاقے کا بادشاہ کہلاتا ہے ۔ حکومت انتظامی افسران کے ذریعہ ناجائز منافع خوری ۔ ذخیرہ اندوزی کا سدباب کرے ۔ اِس طرح کے کاموں کو روکناانتظامی افسران کی ڈیوٹی میں شامل ہے۔ یہ جو وبا چل پڑی ہے میڈیائی رونمائی کی ۔ اس کو حکومت بند کروائے۔جو بھی افسر مارکیٹ میں چھاپہ مارنے کیلئے نکلتا ہے تو اُس کو اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ میڈیا کی لوگوں کو ساتھ لیکر چلے ۔ ذخیرہ اندوزی ۔ منافع خوری کا تدارک کرنا افسران کی ڈیوٹی میں شامل ہے ۔ تو پھر تشہیر تو نہیں ہونی چاہیے ۔

مزیدخبریں