سرکاری ہسپتالوں میں ادویات نہ ڈاکٹر راہداریوں میں انسانیت سسکنے لگی 

ملتان(توقیر بخاری سے)سرکاری ہسپتال، خود علاج کے منتظر،صحت کی سہولیات بنیادی انسانی حقوق میں سے ہی ایک تصور کی جاتی ہے مگر  بدقسمتی سے پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں صحت کا شعبہ انتہائی بد ترین حالت میں پایا جاتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں مریض اور نرس کی شرح 3626:1 ہے۔ ملک بھر کے 19ٹیچنگ ہسپتالوں میں صرف 12ہزار بیڈز ہیں۔انتہائی نگہداشت یونٹس کو متعلقہ تربیت یافتہ نرسنگ سٹاف اور وینٹی لیٹر کی شدید کمی کا سامنا ہے حالانکہ ایک اندازے کے مطابق ہر 10 مریضوں میں سے ایک کو انتہائی نگہداشت یونٹ کی ضرورت ہے۔ملک میں لگ بھگ 118 میڈیکل کالجز ہیں جن میں سے بمشکل 10 ادارے معیاری تعلیم فراہم کر رہے ہیں۔ پاکستان میں طب کی تعلیم حاصل کرنے والوں میں 80 فیصد تعداد خواتین کی ہوتی ہے، جن میں سے بیشتر تعلیم مکمل ہونے کے فوری بعد اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائگی شروع نہیں کرتیں۔تنظیم کا ماننا ہے کہ یہ ملک میں ڈاکٹروں کی قلت کا ایک اہم سبب ہے اور صحت عامہ سے متعلق کئی مسائل کی وجہ بھی۔ملک میں ہر 1,200 کے قریب افراد کے لیے ایک ڈاکٹر، لگ بھگ 1,700 افراد کے لیے ایک ڈینٹسٹ اور 1,700 مریضوں کے لیے ہسپتال کا ایک بستر ہے بلاشبہ ہمارے پاس پیسے، ہسپتال اور ڈاکٹرز کی کمی ہے لیکن ان سب سے زیادہ ہمیں شفافیت کی ضرورت ہے۔شعبہ صحت کے انتظامی معاملات، سروس سٹرکچر اور سیکیورٹی جیسے معاملات حل نہ ہونے کی وجہ سے آئے روز ڈاکٹروں کی ہڑتالیں معمول بن گئی ہیں۔ ہسپتالوں میں ادویات ہیں اور نہ مطلوبہ ڈاکٹرز جو ہیں وہ بھی اپنا کام احسن طریقے سے انجام دینے سے قاصر ہیں۔ بھاگ دوڑبہت دکھائی دیتی ہے لیکن عملاً آج ملک میں تمام سرکاری ہسپتالوں کے حالات یہ ہیں کہ انسانیت ہسپتالوں کی راہ داریوں میں سسکتی رہتی ہے۔ ہر سرکاری ہسپتال میں مریضوں کی خواری روزانہ کا معمول بنتا جا رہا ہے، کوئی علاج کیلئے ترس رہا ہے تو کسی کی باری ہی نہیں آ رہی جبکہ ہسپتال کے گارڈز اور ڈاکٹرز کا آئے روز مریضوں کے لواحقین کے ساتھ مار پیٹ معمول بنتا جارہا ہے۔ لواحقین کا کہنا ہوتا ہے کہ ہسپتال عملہ پیسے لئے بغیر اندر نہیں جانے دیتا اور ڈاکٹرز کی توجہ مریضوں پر کم ہوتی ہے اگر انہیں کہا جائے تو لڑنے مرنے پر اتر آتے ہیں۔سرکاری علاج گاہوں میں بیٹھے ڈاکٹرز کے رویوں کی شکایات زبان زد عام ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹرز و دیگر سٹاف کی کمی درست لیکن جو موجود ہیں انہیں تو مریض سے خوش اخلاقی سے پیش آنا چاہیے۔سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹرز مریضوں کو پرائیویٹ لیبارٹریوں سے ٹیسٹ کا مشورہ دیتے ہیں ۔ سرکاری ہسپتالوں میں ڈائیلاسز کے مریضوں کی تعداد زیادہ اور مشینیں کم ہیں، ’’خیرات‘‘ کے نام پر کچھ غریبوں میں تھوڑی سی ادویات تقسیم کرکے باقی سڑک پار میڈیکل سٹور پر پہنچا دی جاتی ہیں، ادویات کی خرید و فروخت میں ہونے والی کرپشن کے لاتعداد کیسز اس بات کے شاہد ہیں۔ کارڈلوجی انسٹویٹ میں ہارٹ کے مریضوں کو انجیوگرافی کیلئے6سے7ماہ اور بائی پاس آپر یشن کیلئے کم ازکم 1سال کا وقت دیا جا تا ہے ۔ ملتان کار ڈلوجی انسٹی ٹیوٹ میں 2000سے زائد غر یب مر یضوں کو  مکمل ادویات کیلئے کئی کئی ماہ چکر لگانے پڑتے ہیں اور وہاں بھی ہارٹ کے مر یضوں کے بروقت آپریشن بھی ایک خواب بن چکے ہیں۔ بروقت آپریشن نہ ہونے کی وجہ سے 10فیصد غر یب مریض جاں بحق ہو جاتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن