شرمناک حد تک کم اجرت لینے والی ورک فورس سماجی جبر سے دوچار

عنبرین فاطمہ
مزدوروں کے عالمی دن پر محنت کش عورتوں کی اس شعبے میں دکھ، تکالیف اور قربانیوں کا ذکر کئے بغیر ان کے حقوق کی جد جہد کو مکمل نہیں  سمجھا جا سکتا۔ دنیا بھر میں  محنت کشوں کا حصہ رہنے والی یہ عورتیں اپنے کام کے ذریعے اپنے ملکوں کی معیشت کی ترقی میں اہم کردارتو  ادا کر رہی ہیںلیکن ان کو بھی معاشی ترقی میں تفریق اور عدم مساوات کا سامنا ہے، یہ محنت کش خواتین گھر داری، بچوں کی نگہداشت اور دیگر امور کے ساتھ مردوں کے مقابلے میں کئی گناہ زیادہ کام کرتی ہیں مگر پھر بھی  زبردست استحصال کا شکار ہیں۔ان کی صورتحال خاصی ابتر ہے ۔پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں  گھروں اور چھوٹے موٹے کام کاج  سے پیٹ پالنے والی یہ خواتین کسی قانون کے دائرہ میں آتی ہیں اور نہ ہی ان کی اجرتوں کے بارے میںکوئی آواز اٹھاتا ہے۔ان کے لئے نا صرف قانون بنایا جانا چاہیے بلکہ انہیں ورکرز کے طور پر بھی گنا جانا چاہیے تاکہ ان کی معاشی اور سماجی حالت میں بہتری آسکے۔ان کے کام کی اجرت شرمناک حد تک کم ہے مگر پھر بھی کام کرنے پر مجبور ہیں اور ٹھیکیداروں کے رحم و کرم پر ہیں یہ نہ نظر آنے والی مزدور فورس خوفناک معاشی ،معاشرتی اور سماجی جبر کا شکار ہے ، کام کے دوران پیش آنے والے حادثات میں بھی انہیں فیکٹری کی جانب سے کوئی سہولت میسر نہیں ہوتی اور نہ ہی صحت کی سہولیات مہیا کی جاتی ہیں بلکہ بیمار پڑ جانے پر کام سے بھی محروم ہونا اور اپنے اوپرخرچ کرنا پڑتا ہے جو یہ کما رہی ہوتی ہیں یوںان کے گھروں میں فاقوں کی نوبت آجاتی ہے۔انکو ملنے والی اجرت ان کی محنت کے مقابلے میں پہلے  ہی بہت  قلیل اور زندگی بسر کرنے کے لئے ناکافی ہوتی ہے ۔ اس پریہ محنت کش خواتین تو سوشل سیکیورٹی کی بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا یہ کام مستقبل بنیادوں پر نہیں ہوتا کبھی کام ملتا ہے کبھی نہیں ملتا۔ ان ورکارکن خواتین کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کس کے لئے کس فیکٹری میں کام کررہی ہیں۔ بات کریں  اگرہم زراعت کی تو زراعت  ملکی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی ہے ۔ خواتین زراعت میں بطور افرادی قوت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ دیہاتی پس منظر رکھنے والے لوگ آج بھی دیکھ سکتے ہیں کہ مئی کی جان لیوا گرمی میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ گندم کی کٹائی میں شریک ہیں مگر ان کی انفرادی حیثیت میں بطور مزدور ان کا کوئی معاوضہ ہے اور نہ کوئی شناخت ۔لائیو سٹاک میں خواتین کا کردارمرکزی اور اہم ہے۔ زراعت سے منسلک ہر شعبہ میں خواتین ملکی زرعی معیشت کے استحکام اور 19 کروڑ عوام کی خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے لیے برسرپیکار ہیں، صرف زراعت ہی نہیں بلکہ ٹیکسٹائل، تعمیراتی مٹیریل کی تیاری اور سپورٹس انڈسٹری میں بھی خواتین مؤثر پیداواری کردار ادا کررہی ہیں۔ان محنت کش خواتین کو تو یہ بھی نہیں پتہ ہوتا کہ یوم مئی ہے کیا اور اس دن کیا ہونا چاہیے۔ یہ تو معمول کے دنوں کی طرح صبح کو اٹھتی ہیں اور اپنے اپنے کاموں میںلگ جاتی ہیں کوئی فیکٹری میں کام کرنے نکل جاتی ہے تو کوئی کھیتوں میں ،کوئی دستکاری اور کوئی سلائی کڑھائی ،کوئی کوئلے کی بوریاں بھرنے تو کوئی بھٹہ مزدوری میں اپنے ہاتھوں سے اینٹیں بناتی اور کوئی گھروں میں صفائی کررہی ہوتی ہیں۔انہیں تو یہ بھی نہیں پتہ ہوتا کہ ان کے  بچے کس حال میں ہیںحقوق کیا ہیں اور انہیں اپنے مالک سے اپنے معاوضے کے حوالے سے کس طرح بات کرنی ہے ۔اور کام کے اوقات کار  کے لئے کیسے آواز اٹھانی ہے۔ ان محنت کش خواتین کو مزدور سمجھا جانا بہت ضروری ہے ان کے لئے قانون سازی کی جانی چاہیے ،اور یہ کام حکومتوں کا ہے لیکن جو بھی حکومت آئی ہے اس نے اس طرف توجہ ہی نہیں دی۔ یہاں لیبر قوانین موجود ہیں لیکن یہ محنت کش خواتین کسی قانون کے دائرہ کار سے باہرہیں اور مزدوروں کی بڑی تعداد استحصال،جبری مشقت کرنے پر مجبور ہے۔
مزدوروں کو ان کا جائز مقام دئیے جانے کی ضرورت ہے۔اس کیلئے ہر چھوٹی بڑی انڈسٹری کو رجسٹرڈ کیا جائے کسی بھی فیکٹری ،صنعت میں کام کرنے والے مزدوروں کو سوشل سکیورٹی کارڈ ملنے چاہئیں کیونکہ اس کارڈ کے باعث ہی مزدور کو کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں معاشی تحفظ ملتا ہے۔ اگر خدانخواستہ کوئی مزدور کسی حادثاتی موت کا شکار ہو جاتا ہے تو اہلخانہ سوشل سکیورٹی کارڈ کے باعث ہی معاشی تحفظ حاصل کرنے کی چارہ جوئی کر سکتے ہیں۔
ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق بیسویں صدی کے وسط میں پاکستان میں دو ملین عورتیں غیر رسمی شعبے سے منسلک تھیں جبکہ پاکستان میں کی جانے والی مختلف ریسرچ کے مطابق غیر رسمی شعبے میں کام کرنے والی محنت کش عورتوں کی تعداد رسمی شعبے میں کام کرنے والی محنت کش عورتوں سے کئی گناہ زیادہ ہے۔
ہم نے موقع اور موضوع کی مناسبت سے گھروں میں کام کرنے والی خاتون شازیہ سعید سے بات کی شازیہ لاہور ہی رہائشی ہیں انہوں نے بتایا پندرہ سال  سے وہ لوگوں کے گھروں میںکام کر رہی ہیں ان کا شوہر سیلز مین ہے۔ شوہر کی کمائی اتنی زیادہ نہیں تھی کہ ہماری دو وقت کی روٹی پوری ہو لہذا انہوں نے کام کرنے کا فیصلہ کیا ۔انہوں نے بتایاپڑھی لکھی نہیں تھی اسلئے گھروں میں ہی کام کر سکتی تھی یہی میرے لئے آسان تھا۔تاہم میرے شوہر کہتے تھے ،ہم مزدوری کر لیتے ہیں   تاکہ بچوںکو اتنا ضرور پڑھا دیں یہ کوئی باعزت ملازمت کر سکیں۔ہماری کوشش ہے کہ ہمارے تینوں بچے پڑھ لیں۔مجھ جیسی بہت سی دوسری عورتیں بھی گھروں میں کام کرتی ہیں ہم اپنا کام ایمانداری سے کرتے ہیں لیکن اگر کبھی کوئی گلاس ٹوٹ جائے ،یا کوئی نقصان ہو جائے تو بعض مالک ایسے  بھی ہوتے ہیںکہ وہ تنخواہ سے پیسے کاٹ لیتے ہیں درگزر نہیں کرتے ۔مجبوری کی وجہ سے کام کرنا پڑتا ہے ورنہ روز کی جھڑکیاںآنکھوں میں آنسو لے آتی ہیں۔اس  خاص دن پہ  ہماری حکومت سے اپیل ہے کہ ہمارے لئے بھی کچھ سوچیں ہمیں بھی مزدور سمجھا جائے اورہمارے لئے بھی قانون بنایا جائے۔

ای پیپر دی نیشن