حرمتِ ربا بارے فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں ، مفتی منیب الرحمن 

May 01, 2022


کراچی (این این آئی)فیڈرل شریعت کورٹ نے پہلی بار 1991میں حرمتِ ربا کا فیصلہ صادر کیا تھا، اس پر اس وقت کی وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ شریعت اپیلٹ بنچ میں اپیل دائر کی تھی،وفاقی حکومت کوفیصلے پرمکمل عمل درآمد کے لیے جون2002کی ڈیڈلائن دی گئی تھی کہ وہ ملک کے اندر بینکاری نظام اور نظامِ معیشت کو سود سے پاک کردے اور لا ربائی نظامِ معیشت رائج کرے۔لیکن اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں اچانک سپریم کورٹ شریعت اپیلٹ بنچ کوتحلیل کردیا گیا اور دو نئے جج مقرر ہوئے، ایک برطانیہ سے درآمد کردہ ڈاکٹر خالد علوی اوردوسرے ڈاکٹر رشید احمدجالندھری سپریم کورٹ شریعت اپیلٹ بنچ میں شامل کیے گئے اورپھر اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان شیخ ریاض احمد کی سربراہی میں اس فیصلے کو نظرثانی کے لیے واپس فیڈرل شریعت کورٹ بھیج دیا گیا۔اس دوران بیس سال تک یہ فیصلہ معطل رہا ، مگر اب اپریل 2022میں فیڈرل شریعت کورٹ نے ایک بار پھر حرمتِ ربا کا فیصلہ صادر کردیا ہے اور حکومت کو لاربائینظام قائم کرنے کے لیے پانچ سال کی مہلت دی ہے۔بظاہر موجودہ وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے، لیکن اب حکومت کے عمل سے واضح ہوگا کہ وہ اس فیصلے پر عمل درآمد کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کرتی ہے اور کونسا میکینزم قائم کرتی ہے ۔ابھی ہم نے تفصیلی فیصلے کا مطالعہ نہیں کیا کہ آیا سپریم کورٹ اپیلٹ بنچ کو سابق فیصلے پر کونسے تحفظات تھے اور کن وجوہ کے باعث اس کیس کو نظر ثانی کے لیے واپس فیڈرل شریعت کورٹ بھیجاگیا اور فیڈرل شریعت کورٹ نے ان تحفظات کا کیا حل پیش کیا ہے، کیس کے تفصیلی مطالعے کے بعد صورتِ حال واضح ہوگی۔ہونا یہ چاہیے کہ فیڈرل شریعت کورٹ کی نگرانی میں ایک اسٹیرنگ کمیٹی بنائی جائے اور وہ اس فیصلے پر عمل درآمد کی رفتار اور اقدامات کا مسلسل جائزہ لے اور اگر عمل درآمد میں کچھ رکاوٹیں پیش آئیں تو ان کا شرعی حل تجویز کریتاکہ حکومت کے پاس معاملے کو معرضِ التوا میں ڈالنے کا جواز نہ رہے۔ بنیادی مشکل یہ ہے کہ گورنر اسٹیٹ بنک آف پاکستان سمیت ہماری روایتی بینکنگ انڈسٹری کے تمام سربراہان ،عملے کی تربیت اور تجربہ سودی بینکنگ پر مشتمل ہے اور ان کی ذہنی ساخت بھی وہی ہے، اس لیے بڑے پیمانے پر تربیت کی ضرورت ہوگی، صرف فیصلے پر جشنِ فتح منانے سے یہ مرحلہ سر نہیں ہوگا۔ حکومت کے تقریبا پچاس ہزار ارب روپے کے داخلی اور خارجی قرضے سود پر مبنی ہیں اور عالمی مالیاتی اداروں (ورلڈ بنک، ایشین ڈویلپمنٹ بنک اور آئی ایم ایف)کے ساتھ معاملات بھی سود پر مبنی ہیں ،ان عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ معاملات کو طے کرنا بھی ایک دشوار امر ہوگا ، لیکن اگر نیت صادق ہوتو اللہ تعالی کوئی نہ کوئی راہِ نجات مقدر فرمادیتا ہے۔ 

مزیدخبریں