آئین یا پسے ہوئے طبقے کا معاملہ ہو تو عدالتیں رات 3 بجے بھی کھیلیں گی: جسٹس اطہر
بے شک قانون نافذ ہوتا ہو ا نظر آنا چاہئے۔ جس دن ہمارے ہاں قانون ہر شہری اور پسماندہ طبقے کی آواز پر لبیک کہتا ہوا اس کی دادرسی کرے گا۔ سمجھ لیں اس دن ملک میں قانون کا بول بالا ہوگا۔ مغربی اقوام نے آج جو ترقی حاصل کی ہے۔ وہ اس وجہ سے ممکن ہوئی ہے کہ وہاں ہر ادنیٰ اور اعلیٰ کیلئے قانون یکساں ہے۔ سب قانون پر عمل کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں۔ ان کے ہاں کسی کو قانون سے مفر نہیں ہے۔ اس کے برعکس بدقسمتی سے ہمارے ہاں ابھی تک قانون کو موم کی ناک سمجھا جاتا ہے۔ مگر جیسے جیسے معاشرے میں شعور بیدار ہو رہا ہے۔ بااثر اور مقتدر طبقوں کی بالادستی کو قانون کے آگے گھٹنے ٹیکنے پڑ رہے ہیں۔ طاقت اور اقتدر کے نشے میں بدمست عناصر اب آہستہ آہستہ قانون کے سامنے خم ہونے لگے ہیں۔ ہماری عدالتیں اگر اسی طرح آئین کی پاسداری یا پسے ہوئے مظلوم طبقات کیلئے 3 رات بجے بھی کھلیں جیسا کہ جسٹس اطہر نے کہا ہے تو خدا جانتا ہے محکوم و مجبور عوام انہیں دعائیں دیں گے۔ یہ ملک کی بڑی خدمت ہوگی۔ خدا کرے کہ ہمارے ہاں بھی قانون کا بول بالا ہو اور ہر چھوٹا بڑا اس کے آگے جوابدہ ہو جائے۔ انصاف پر مبنی معاشرے کو زوال نہیں ہوتا اور ناانصافی والا معاشرہ کمال پر نہیں پہنچتا ۔ سچ ہی کہتے ہیں
ظلم بچے جن رہا ہے کوچہ و بازار میں
عدل کو بھی صاحبِ اولاد ہونا چاہئے
٭٭٭…٭٭٭
اسلام آباد میں سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی پر نامعلوم افراد کا حملہ
سیاسی عدم برداشت کی وجہ سے آج کل جو کچھ ہو رہا ہے۔ اس سے ملک کی بدنامی کے سوا اور کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ سعودی عرب کے واقعے کے بعد نفرت کی یہ آگ مزید نجانے کیا کیا تماشے دکھائے گی۔ مدینہ منورہ میں بلوچ رہنما شاہ زین بگٹی کے ساتھ مسجد نبوی شریف میں شرارت کی گئی کسی نے ان کے بال کھینچے۔ حالانکہ ان کا تعلق مسلم لیگ نون سے نہیں تھا۔ وہ تو اپنی پارٹی پاکستان جمہوری وطن کے سربراہ ہیںاور حکومتی اتحاد سے علیحدہ ہوئے تھے۔ بہرحال وہ اپنے قبیلے کے سردار بھی ہیں اور بلوچ روایات میں کسی شخص کی داڑھی یا بالوں پر ہاتھ ڈالنا نہایت معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اب اگر کسی نے ایسا کیا تو پھر وہ بچ کر جائے گا کہاں۔ پی ٹی آئی والوں نے جو حرکت کی اس کا ردعمل پاکستان میں سامنے آ رہا ہے۔ بلوچستان نے کئی شہروں میں ردعمل سامنے آیا۔ اب قاسم سوری سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی گزشتہ شب اسلام آباد کی مارکیٹ میں جب سحری کے لئے آئے ہوئے تھے تو پاکستان جمہوری وطن پارٹی کے کارکنوں نے انہیں دیکھ لیا۔ بس پھر کیا تھا قبائلی جذبات جوش میں آ گئے اور انہوں نے پی ٹی آئی کے حامیوں کی ناروا حرکت کا غصہ پی ٹی آئی کے رہنما پر نکالا شکر ہے زیادہ چٹاخ پٹاخ نہیں ہوئی ورنہ معاملہ بگڑ جاتا۔ قاسم سوری نے کھسک جانے میں عافیت سمجھی اور چلے گئے۔ اس سے سبق حاصل کرنا ضروری ہے۔ جب ہم سیاست کو ذاتیات پر لائیں گے بد زبانی کریں گے تو مخالین بھی ہم سے ویسا ہی کر سکتے ہیں اس لئے احتیاط لازم ہے۔ ہمارے ملک کے بڑے حصے میں آج بھی قبائلی سسٹم موجود ہے۔ کہیں یہ سیاسی جنگ قبائلی رقابت کی آگ نہ بھڑکا دے جو نہایت خطرناک بات ہوگی۔
٭٭٭…٭٭٭
بھارتی پنجاب میں خالصتان تحریک کے حامیوں اور انتہا پسند ہندوؤں میں تلواریں چل گئیں
بھارتی پنجاب کے شہر پٹیالہ کی یوں تو شہرت بہت ہے۔ مگر ہمارے ہاں موسیقی سے شغف رکھنے والے لوگ پٹیالہ گھرانے کی گائیکی کے شیدائی ہیں۔ دوسری بات یہ کہ قیام پاکستان کے وقت مشرقی پنجاب کے زیادہ تر مسلمان جن علاقوں میں اپنا ہنستا بستا ہرا بھرا یا گھر بار چھوڑ کر آئے ان میں پٹیالہ گورداس پور‘ امرتسر‘ ہوشیار پور اوربٹالہ وغیرہ کو آج بھی اسکے باسی یاد کرتے ہیں۔ بہت سے تو اپنے نام کے ساتھ فخریہ طور پر امرتسری‘ گورداس پوری‘ ہوشیارپوری اور بٹالوی لکھتے ہیں۔ اس شہر میں گزشتہ روز بھارتی انتہا پسند مودی سرکار کی لگائی گئی ہندوتوا کی متشدانہ سوچ نے اپنا رنگ دکھایا۔ کالی ماتا کے مندر کے قریب ہندو انتہا پسندوں نے سکھوں کے مذہبی جلوس پر توتکار کی جس نے انہیں مشتعل کر دیا۔ بس پھر کیا تھا۔ نہنگ سکھ اور خالصتانی سکھوں نے بھی جوابی خالصہ رنگ دکھایا اور بھرپور تصادم ارد گرد کے علاقوں میں بھی پھیل گیا۔ سکھوں نے انتہا پسند ہندو کو چھٹی کا دودھ یاد دلایا۔ اب ہندوتوا کے حامی ان سکھوں کو ملک دشمن قرار دے رہے ہیں۔ اور خود کو مظلوم۔ یہی چانکیائی سیاست کی راہ بی جے پی نے اپنے غنڈوں کو سکھائی ہے کہ مارو بھی اور مظلوم بھی بن جاؤ جو آگ انہوں نے بھڑکائی ہے۔ اس کا پہلا شکار مسلمان بنے۔ اب یہ آہستہ آہستہ سکھوں کے دامن تک جا پہنچی ہے ۔ مگر یاد رہے سکھ دبنے والے نہیں کیونکہ ان کے پاس اپنا علاقہ پنجاب کی شکل میں موجود ہے۔ جہاں انکی اکثریت ہے۔ مسلمانوں کا المیہ یہی ہے کہ وہ پورے ہندوستان میں بکھرے ہوئے ہیں۔ ورنہ وہ بھی کب کا ایک نیا پاکستان حاصل کر چکے ہوتے۔ سکھ البتہ اگر پھر بیدار ہو گئے تو مشرقی پنجاب کو خالصتان بننے سے کوئی روک نہیں سکے گا۔ یہ بات ہندو حکمران جانتے ہیں کیونکہ فوج اور پولیس میں سکھ بڑی تعداد میں موجود ہیں اور کسی بھی وقت ان کا موڈبدل سکتا ہے۔
٭٭٭…٭٭٭
لاہورسے پردیسیوں کی روانگی شروع‘ ٹرانسپورٹر دونوں ہاتھوں سے لوٹنے لگے
یہ ہماری سالانہ پریکٹس ہے۔ ہر سال عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ کے موقع پر بڑے بڑے شہروں میں کام کرنے والے یکدم پنچھی تے پردیسی بن جاتے ہیں اور اپنے اپنے آبائی علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔ اب ان کی واپسی کے وقت ریلوے سٹیشنوں۔ بس اڈوں پر خوب رش رہتا ہے۔ ٹکٹیں دستیاب نہیں ہوتیں۔ ٹرانسپوروں کی ملی بھگت سے یہ ٹکٹیں زیادہ قیمت پر فروخت ہوتی ہیں۔ یہ کام ان کے ایجنٹ بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیتے ہیں۔ یوں بے چارے مسافر گھر جانے کی خوشی میں زائد رقم ادا کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ لاہور۔ کوئٹہ۔ اسلام آباد ان تینوں شہروں میں تو پردیسیوں کے جانے کے بعد واقعی شہر خالی خالی لگتا ہے۔ ہاں کراچی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہاں سے بھی ہزاروں ملازمت پیشہ یا کام کاج کرنے والے اپنے اپنے دیہات اور گھروں کا رخ کرتے ہیں مگر خدا گواہ ہے کراچی خالی نظر نہیں آتا۔ اس وسیع گنجان آباد شہر میں لگتا ہی نہیں کہ یہاں سے ہزاروں افراد چھٹیاں منانے اپنے گھروں کو گئے ہیں۔ لاہور بھی تین دن سے زیادہ خالی نظر نہیں آتا۔ بلکہ عید کے تیسرے روز ہی ارد گرد کے رہنے والے دیہات ‘قصبات اور شہروں کے باسی یہاں ہلہ بول دیتے ہیں اور تفریحی مقامات ‘ چڑیا گھر پارکوں اور کھانا پینے کا مراکز پرکئی گنا زیادہ رش ہوتا ہے۔ اس وقت جانے والوں کا رش ہے۔ چند دن بعد آنے والوں کی دہائی ہوگی کہ ٹکٹ نہیں مل رہے لٹ رہے ہیں۔ اس بار تو خیر سے سرکاری ملازم پورا ہفتہ موج کریں گے۔ سنڈے ٹو سنڈے چھٹیاں منائیں گے۔