سارا رمضان گزر گیا سیاسی بخار کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ رمضان المبارک میں ہم بھی اپنے کالموں کی زکٰوۃ دیا کرتے تھے۔ ایک دو کالم لازمی طور ان اداروں اورشخصیات کے نام وقف ہوتے تھے جو بے وسیلہ اور بے آسرا لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں جنھوں نے اپنے آپ کو سماج کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ میں نے سوچ رکھا تھا کہ اخوت فاونڈیشن جو پاکستان میں بے وسیلہ لوگوں کو پاوں پر کھڑا کرنے کی سب سے بڑی تنظیم بن چکی ہے اس کے روح رواں ڈاکٹر امجد ثاقب صاحب پاکستان کی شناخت ہیں بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا روشن چہرہ ہیں۔ اب تو ان کا نام نوبل پرائز کے لیے بھی تجویز ہو چکا۔ انھوں نے پاکستان میں ایک سماجی انقلاب برپا کر دیا ہے جو یقینی طور پر پاکستان کا فخر ہیں۔ المصطفی ویلفیئر ٹرسٹ جو لاہور میں آنکھوں کا ہسپتال لنگر خانہ اور ویلفیئر کے کئی منصوبے رواں رکھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح غزالی ایجوکیشن فاونڈیشن جو دور دراز دیہات میں تعلیمی اداروں کا نیٹ ورک چلا رہے ہیں اور پاکستان کے غریب بچوںکو معیاری تعلیم سے روشناس کر کے باشعور پاکستان کے بنیاد رکھ رہے ہیں۔ ایک لاکھ سے زائد طلباء الغزالی ایجوکیشن فاونڈیشن کے نیٹ ورک سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔1 سندس فاونڈیشن والے جو میڈیکل کے شعبہ میں انسانیت کی خدمت کا بے مثال کام کر رہے ہیں۔ تھیلیسمیا میں مبتلا بچوں کو خون فراہم کر کے انکی زندگی کو رواں رکھے ہوئے ہیں۔ یاسین خاں کی دکھی انسانیت کے لیے خدمات قابل قدر ہیں۔ رہائی تنظیم کی روح رواں سیدہ فرح ہاشمی جیلوں میں قید بچوں کو مفت تعلیم کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں۔ خوشی اس بات کی ہے کہ جیلوں میں قائم رہائی کے سکولوں سے تعلیم حاصل کرنے والے بے شمار بچے اب عملی زندگی میں قدم رکھ چکے ہیں اور معاشرے کے فعال رکن بن کر زندگی گزاررہے ہیں۔ ذرا تصور کریں اگر ان بچوں کی رہنمائی نہ ہوئی ہوتی تو یہ آج کسی جرائم پیشہ گروہ کے رکن ہوتے لیکن رہائی سکولوں نے ان کی زندگی بدل دی ۔ لاہور کا بابا ایدھی میاں سعید ڈیرے والا خاموشی کے ساتھ انسانیت کی خدمت میں مصروف رہتا ہے۔ ابھی رمضان المبارک میں ہزاروں مستحقین کے لیے پورے مہینے کا راشن پیکج تقسیم کیا روزانہ افطاری کے وقت لاہور کے تمام ہسپتالوں میں مریضوں کے لواحقین کے لیے کھانے کا اہتمام کے علاوہ لاہور کے مختلف علاقوں میں روزانہ افطاریوں کا اہتمام کیا۔ کورونا کے دنوں میں روزانہ ہزاروں لوگوں کا کھانا الخدمت فاونڈیشن کے ذریعے ان کے گھروں میں پہنچایا۔ یتیم بچیوں کی شادی ، بے وسیلہ بچوں کی پڑھائی سمیت سماجی شعبہ کے ہرمعاملے میں ان کی خدمات قابل تحسین ہیں۔ وہ ہر سال گھرکی ہسپتال کو خطیر چندہ اکھٹا کر کے دیتے ہیں۔علاوہ ازیں القلم فاونڈیشن کا کردار بھی لائق ِ تعریف ہے۔
جنھوں نے ایسی ایسی شہرہ آفاق کتابیں شائع کی ہیں کہ وہ تاریخ کا حصہ بن گئی ہیں۔ مولانا عبدالستار عاصم نے اپنی زندگی کتابوں کی اشاعت کے لیے وقف کر رکھی ہے۔ ابھی حال ہی میں انھوں نے سکوارڈن لیڈر زاہد یعقوب عامر ایم ایم عالم، کیپٹن کرنل شیر خان،حوالدار لالک جان شہید پر لکھی کتابیں شائع کی ہیں ۔جن پرتفصیل سے لکھنا چاہتا تھا۔ اسی طرح دوستوں کی فرمائشیں بھی تھیں جو کہ پوری نہ کر سکا ۔ سب کچھ سیاست کی نذر ہو گیا لیکن ان میں سے ادھار ایسے ہیں جو کسی مناسب وقت میں چکائے جا سکتے ہیں۔
اب پھر سیاست کی طرف چلتے ہیں۔ کچھ عرصہ سے پاکستانی معاشرے پر سیاست کا رنگ اتنا غالب رہا کہ اور کچھ سجھائی ہی نہ دیا کیونکہ اچانک تبدیلیوں نے بڑے گہرے اثرات چھوڑے اور آنے والے وقت میں بھی اسکے گہرے اثرات مرتب ہوں۔ گے پاکستان کی گیارہ سیاسی جماعتوں نے ایکا کر کے اکیلے عمران خان کو اقتدار سے تو علیحدہ کر دیا لیکن وہ نہ صرف ساری سیاسی جماعتوں کے گلے کی ہڈی بن چکا ہے بلکہ سسٹم کو بھی بے نقاب کرکے پاکستان کے معاشرے کو ننگا کر چکا ہے۔ نہ جانے اس نے عوام پر کیا جادو کیا ہے لوگ دیوانہ وار اس کی کال پر ہر وقت سڑکوں پر آنے کے لیے تیار کھڑے ہوتے ہیں۔ اس صورتحال نے بڑے بڑوں کے ہاتھو ں کے طوطے اڑا دیے ہیں سیاست کے بقراطوں،سقراطوں اور ارسطووں کو سمجھ نہیں آ رہی کہ ہو کیا گیا ہے اور اس سے نمٹا کیسے جائے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ تیز بہاؤ کے پانی کے آگے بند باندھنا آسان نہیں ہوتا۔ عمران خان اب عوامی سیلاب کی شکل اختیار کر چکا ہے جس کے آگے بند باندھنا آسان نہیں۔ پاکستان کے کرتا دھرتا لوگوں کو اس تبدیلی کو سمجھنا چاہیے اور اگر اس عوامی سیلاب کو جگاڑ لگا کر روکنے کی کوشش کی تو اس کے خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں جس کا پاکستان متحمل نہیں ہو سکتا۔ عوام کو فیصلہ کرنے دیں یہی بہترین حل ہے اور درست راستہ ہے سیاست کا اصل میدان عید کے بعد سجے گا۔ عمران خان رمضان کے آخری عشرے میں جبکہ لوگ اعتکاف بیٹھے ہوئے ہیں میں بھی متحرک ہیں وہ اپنے ورکرز سے میٹنگز کر کے عید کے بعد کی سیاسی جدوجہد کی تیاریوں میں مصروف ہیں انھوں نے مذہبی ماحول میں بھی اپنے لیے راستہ نکال لیا ہے۔ تحریک انصاف کی عوامی موبلائزیشن کو دیکھ کر مسلم لیگ (ن) کی مریم نواز شریف نے بھی لاہور کے انتخابی حلقوں میں اجتماعات شروع کر دیے ہیں اور عید کے بعد انھوں نے بھی عوام میں جانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ان کے جلسوں سے پتہ چلے گا کہ آج کی صورتحال میںنون لیگ کہاں کھڑی ہے اور تحریک انصاف کہاں کھڑی ہے۔ ماضی میں رمضان المبارک میں سیاست صرف افطار پارٹیوں تک ہی محدود ہوتی تھی لیکن اب کی بار تو سب سے زیادہ سیاسی گہما گہمی رمضان میں دیکھنے کو ملی عید کے بعد سیاست کا نقطہ عروج ہو گا۔ سیاسی جماعتوں کا اتحاد حکومت چلانے اور تحریک انصاف حکومت گرانے کے لیے میدان لگائیں گی۔