عیشہ پیرزادہ
وہ 1880 کا سال تھا' جب دنیا میں پہلی بار امریکا بھر کے مزدوروں کی تنظیموں نے یہ مہم چلائی کہ انہیں کام کی جگہوں پر بہتر ماحول فراہم کیا جائے اور چوبیس چوبیس گھنٹے کی ڈیوٹی کی بجائے 8 گھنٹے تک کام لیا جائے۔ یہ ایک ایسی مہم ثابت ہوئی جو دیکھتے ہی دیکھتے 6 سال میں بالادست طبقے کیلئے ڈرائونے خواب کی شکل اختیار کرگئی۔امریکی امرا کیلئے یہ خواب اتنا ڈرائونا تھا کہ مئی 1886میں اپنا حق مانگنے کا مطالبہ کرنے والے نہتے محنت کشوں کی ایسی ہی ایک ریلی پر پولیس کی جانب سے گولیوں کی بوچھاڑ کر دی گئی۔مظاہرین میںسے چار مزدوروں پر تشدد پر اکسانے کے الزامات لگاکر انہیں پھانسی بھی دے دی گئی۔ظلم کیایسے پے درپے واقعات نے لیبر یونینز کو آفاقی قوت بخشی، امرا کا ضمیر جھنجوڑا۔اور یکم مئی مزدوروں کا عالمی دن بن گیا۔
اقوام متحدہ کے تحت 1919 میں انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن قائم ہوئی۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں محنت کشوں،مزدوروں کی فلاح وبہبود کیلئے محکمہ لیبر اینڈ ہیومن ریسورس نے اس آرگنائزیشن کیساتھ 36 کنونشنز پر سائن کیے ہوئے ہیں۔ پچھلے کچھ سال سے محکمہ لیبر کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھتے رہے ہیں۔ جنوری 2023 سے محکمہ لیبر میں مزدوروں کی فلاح بہبود کیلئے انقلابی اقدامات دیکھنے میں ا?رہے ہیں۔سیکرٹری لیبر کی سیٹ پر ایک ورکر،محنتی،ایماندار اور انسان دوست بیوروکریٹ اسد اللہ فیض کی تعیناتی کے بعد مزدوروں،محنت کشوں کے مسائل حل ہورہیہیں۔ پچھلے ماہ رمضان میں مزدوروں کی خریداری کیلئے قائم وہ فیئر پرائس شاپس جن کی تعداد 100 سے بھی قریب تھی، صرف ایک ماہ میں یہ تعداد 400 تک پہنچا دی گئی، جہاں لیبر ایکٹ کے مطابق 8 بنیادی اشیا سے بھی زائد 30 بنیادی اشیا 30 فیصد تک رعایتی نرخوں میں دستیاب ہیں۔اسد اللہ فیض داد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے31مارچ تک معاوضوں کی ادائیگی کے تمام کیسز بھی نمٹادیے ہیں،جن کی تعداد ایک ہزار کے قریب تھی۔گزشتہ دنوں اسد اللہ فیض سے ملاقات ہوئی۔ آئیے جانتے ہیں کہ یہ مزدوروں،محنت کشوں کی فلاح کیلئے مزید کیا اقدامات اٹھارہے ہیں۔
نوائے وقت: آج یکم مئی ہے۔ محنت کش محکمہ لیبر کی طرف دیکھتے ہیں، محنت کشوں کی فلاح بہبود کے لیے کیا اقدامات اٹھارہیہیں؟
اسد اللہ فیض: جن لوگوں نے لیبر ڈے کے حوالے سے جدوجہد کی ان کی خدمات کو سلام پیش کرتا ہوں۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن مزدوروں کی آگاہی ان کے حقوق کے لیے زبردست اقدامات اٹھارہی ہے۔ یہ جدوجہد ایک صدی پر محیط ہے جس کا پھل آج تک مزدور کھا رہے ہیں۔مزدوروں کی فلاح کے حوالے سے ہمارا ایک بورڈ ہے،جہاں ورکرز،مالکان اور سول سائٹی کے نمائندے ہوتے ہیں،جہاں مزدوروں کی فلاح بہبود کیلئے سفارشات مرتب کی جاتی ہیں۔ابھی ابتدائی طور پر 32ہزار تک مزدوری کرنے کی سفارشات کی گئی ہیں۔حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ لیبر یونین کے لوگ پہلے کہتے تھے کہ ہمیں بچائیں،اب کہتے ہیں پہلے ہماری انڈسٹری بچائیں جب وہ بچیں گی تو ہمارا بھی کچھ ہوگا۔ ملکی معاشی حالات اس طرح کے ہیں۔لیکن ہم چاہے ہیلتھ پیکج ہو یا کوئی اور ویلفیئر کا کام ہم ورکرز کو بہت سہولتیں دے رہے ہیں۔مکمل طور پر مفت سہولتیں مہیا کررہے ہیں۔سوشل سکیورٹی کے دو سو مختلف سینٹر ہیں،جن میں 20 ہسپتال ہیں،ڈسپنسریز ہیں۔ جہاں 50 سے زائد ورکرز کام کررہے ہیں۔وہاں بھی ایمرجنسی سینٹرز بنائے گئے ہیں۔ ایمرجنسی کی صورت میں فوری طور پر پک کر کے جہاں علاج کی ضرورت ہوتی ہے وہاں پہنچاتے ہیں۔اس طرح کا کہیں اور کوئی نظام نہیں ہے۔ریسکیو کا اپنا ایک کردار ہے۔ ہمارا ملتان روڈ پر کاڈیالوجی کا سٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتال بھی ہے۔ہوم بیسڈ ورکر،ڈومیسٹک ورکر کی فلاح کیلئے ان کی بھی رجسٹریشن کر رہے ہیں۔
نوائے وقت: کیا آپ مزدوروں کو ملنے والے حقوق سے مطمئن ہیں؟
اسد اللہ فیض: میں اس حوالے سے مطمئن ہوں کہ ہم مزدوروں کی فلاح و بہود کے لیے ہر ممکن سے ممکن اقدامات اٹھا رہے ہیں، دن رات کی کوششوں سے مزدوروں کو پھل مل رہا ہے۔ بعض دفعہ انفرادی چیزیں بھی آجاتی ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ کو پہلے اپنے حقوق کے بارے میں آگاہی ہونی چاہیے پھر آپ بہتر طور پر اپنے حقوق حاصل کرسکتے ہیں۔
نوائے وقت:مزدوروں،محنت کشوں کو محکمہ لیبر سے بہت امید ہوتی ہے،کیا آپ سمجھتے ہیں کہ محکمہ لیبر اس امید پر پورا اتر رہا ہے؟
اسد اللہ فیض: پہلے صرف وہ لوگ جو انڈسٹری میں کام کررہے ہوتے تھے، انہیں ہی لیبر مانا جاتا تھا۔ لیکن اس کے بعد جب اسٹیبلشمنٹ ا?رڈیننس آیا، اس کے تحت اب ہر ایسی اسٹیبلشمنٹ کوئی بھی دکان،ورکشاپ یا وہ جگہ جہاں 5 سے زیادہ ورکر کام کررہے ہیں، ان پر لیبر قوانین لاگو ہوتے ہیں۔ہم ان کو ورکرز کی کیٹیگری اور رجسٹرڈ آرگنائزیشن میں شامل کرتے ہیں۔ اور وہاں پر یہ یقینی بناتے ہیں کہ ورکرز کو ان کے حقوق ملیں۔ہم پوری کوشش کررہے ہیں کہ مزدوروں،محنت کشوں کو ان کے تمام حقوق فراہم کرتے ہوئے ان کی امیدوں پر پورا اتریں۔ جب میں آیا تو اکا دکا فیئر شاپ تھی۔ اب پچھلے ماہ رمضان میں فیئرپرائس شاپس کی تعداد 400 کے قریب کر دی ہے، جہاں محنت کشوں کیلئے لیبر ایکٹ میں لکھی تعداد سے بھی زائد 30 کے قریب ضرورت کی بنیادی اشیا کی 30 فیصد تک رعایتی نرخ میں فراہمی یقینی بنائی گئی ہے۔ پہلے لیبر ایکٹ کے تحت 8 بنیادی اشیا ہی میسر تھیں۔رمضان میں سوا لاکھ ورکرز اور ان کی فیملیز کو فائدہ ہوا۔ اور جن کے چھوٹے سیٹ اپ تھے، تو ہماری کوششوں سے مالکان نے راشن پیکج دیا۔
نوائے وقت: کیا محنت کشوں کیلئے فیئرپرائس شاپس رمضان کے بعد بھی کھلی رکھنے کی حکمت عملی بنائی ہے؟
اسد اللہ فیض: یہ مستقل طور پر کھلی رہیں گی۔ فیئر پرائس شاپس پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا۔ لیبر ایکٹ کیمطابق یہ ہے کہ جہاں 100 یا 100 سے زیادہ اپملائی ہوں اس جگہہ کے مالک نے وہاں فیئر پرائس شاپ بنانی ہے۔ جہاں 8 بنیادی اشیا موجود ہوں۔ جس میں آٹا،چینی، چاول،دالیں،ٹاول،سوپ اور دیگر ہیں۔ لیکن ہم رمضان کے حوالے سے اس کو مزید آگے لے گئے ہیں کہ جہاں 50 سے زائد ورکرز ہیں وہاں پر یہ بنے گی۔ اس میں 20 سے 30 فیصد تک ڈسکائونٹ ہوتا ہے۔
نوائے وقت: لیبر قوانین کی خلاف ورزی کرنے والی ورکشاپس،دکان،فیکٹری اور دیگر جگہوں کے مالکان کیخلاف کیا اقدامات اٹھائے جارہے ہیں؟
اسد اللہ فیض:لیبر قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جاتا ہے، چالان کیا جاتا ہے۔جرمانے ہوتے ہیں،سزائیں ہوتی ہیں۔ لیبر کورٹس بھی ہیں،پورا ایک نظام ہے۔اگر کوئی کسی قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اپنا انجام بھگتتا ہے۔ انسپکشن کی جاتی ہے،اس حوالے سے سسٹم کو آن لائن کردیا ہے۔ 50 ہزار سے زیادہ چالانز کیے گئے ہیں۔
نوائے وقت:آئی ایل او کا زیادہ فوکس کس بات پر ہے؟
اسد اللہ فیض: آئی ایل او کا پرائم فوکس مزدوروں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔مزدوروں کی صحت اور ان کی سکیورٹی کو یقینی بنانا ہے۔ ورک پلیس پر ہماری لیب موجودہیں، جہاں ہماری ٹیمز جاکر چیکنگ کرتی ہیں کہ کوئی گیس لیکج تو نہیں ہورہی۔ پھر اس کے مطابق کارروائی ہوتی ہے۔
نوائے وقت: محنت کشوں کے بچوں کی تعلیم کے لیے کیا کیا جارہاہے؟
اسد اللہ فیض:13ہزار کے قریب بچے ٹیلنٹ سکالرشپس لے رہے ہیں۔ ہائر ایجوکیشن تک فری تعلیم دی جاتی ہے۔ کتابیں،یونیفارم، جوتے مہیا کیے جاتے ہیں۔ سوشل سکیورٹی کے 70 سکول ہیں۔ جہاں ورکرز کے 60 ہزار بچوں کو مفت تعلیم مہیا کی جارہی ہے۔ ہائر سیکنڈری کے بعد جس بچے نے جہاں بھی پڑھنا ہے ہائر ایجوکیشن کے لیے وہ بھی مکمل فری ہے۔ مکمل طور پر سپانسر کیا جاتا ہے۔ ورکرز کے بچے میڈیکل کالجز میں بھی پڑھ رہے ہیں، جس کا 12 لاکھ تک پے کررہے ہیں۔
نوائے وقت: چائلڈ لیبر ایک بڑا ایشو ہے،چائلڈ لیبر کے خاتمے کیلئے کیا پلان بنایا ہے؟
اسد اللہ فیض: چائلڈ لیبر ہمارے لیے بہت حساس ایشو ہے، اس سے تجارت اور معاشی سرگرمیاں لنک کرتی ہیں۔ اس بارے میں جی ایس پی پلس کی بھی کڑی نظر ہے کہ کوئی بھی فیکٹری،انڈسٹری یا کوئی دوسری اسٹیبلشمنٹ جہاں چائلڈ لیبر ہو اسے انٹرنیشنل مارکیٹ میں ایکسپورٹ کیلئے بھی قبول نہیں کیا جاتا۔ اور یہ خاص طور پر سیالکوٹ،گوجرانوالہ،وزیرآباد میں یہاں بڑا ایشو تھا۔ یہاں آئی ایل او کی مدد سے بہت زیادہ کام کیا ہے۔ ہم نے لیبر قوانین کے تحت ہر جگہ ایکشن لیا ہے۔ جس کے بعد پاکستان کی کارکردگی کو آئی ایل او نے بھی سراہا ہے۔ ہماری ایسی انڈسٹریز جن پر پابندی لگ گئی تھی ان پر چائلڈ لیبر کے خاتمے کی وجہ سے ہی پابندی ہٹی ہے۔ اب چائلڈ لیبر پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا جاتا ہے۔ ہمیں چائلڈ لیبر میں کئی معاشرتی مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کئی جگہیں ایسی ہیں جہاں فیملیز مل کر کام کرتی ہیں۔ 60فیصد چائلڈ لیبر ایگریکلچر سیکٹر میں ہے۔شام اور صبح کو بچہ باپ کے ساتھ کھیتوں میں جاتا ہے۔ یہ ایسے ایشو ہیں جن پر ہم کام کر رہے ہیں۔ اگر بچے کو کسی جگہ پر انگیج کرنا ہے تو ماحول بچے کی صحت کے خلاف نہ ہو۔ ساتھ ساتھ ایجوکیشن ضرور ہونی چاہیے۔ اس پر انٹرنیشنل لیول پر بھی کام ہورہا ہے۔
نوائے وقت: ایسے مزدور، ایسے ورکر جو غیررجسٹرد جگہوں پر کام کرتے ہیں،یا جو ہرروز کے معاوضے پر کام کرتے ہیں،ان کی فلاح کے بارے میں کیا منصوبہ بندی کی ہوئی ہے؟
اسد اللہ فیض: محکمہ لیبر ایسے مزدوروں کے حقوق کے لیے بھی ہر ممکن اقدامات اٹھا رہا ہے۔ یہ ایشو ایک سے زیادہ سٹیک ہولڈر سے منسلک ہوجاتاہے۔ اس پر ہم نے کورونا کے دنوں میں بھی کام شروع کیا تھا۔ جب ہمیں معلوم ہوا کہ اس کے متعلق ہمارے پاس ڈیٹا موجود نہیں ہے، جس کے بعد ہم نے ایک پراجیکٹ شروع کیا جس میں ہمارے پاس آبادی کا ورک ایبل فورس کا ڈیٹا موجود ہو۔ ڈومیسٹک ورکر کا ہم نے سرورے کرلیا ہے۔ اس کا اب ڈیٹا اکٹھا کررہے ہیں۔ جب ڈیٹا اکٹھا ہوگا تو ہمیں معلوم ہوگا کہ کس کس کو ہم نے کس طرح سوشل سکیورٹی دینی ہے۔
نوائے وقت: معاوضوں کی ادائیگی کے لیے کئی احتجاج دیکھنے میں آئے، اس حوالے سے کیا اقدامات اٹھائے گئے ہیں؟
اسد اللہ فیض:معاوضوں کی ادائیگی کیلئے 30 مارچ تک کا ٹائم دیا گیا تھا، تمام پینڈنگ کیسز نمٹا دیے ہیں، اب کوئی پینڈنگ کیس نہیں ہے، یہ ایک ہزار کے قریب کیسز تھے۔ کسی کو نوکری سے نکال دیا تو اسے گریچیوٹی نہیں ملی تھی، کسی کو ڈیتھ معاوضہ نہیں ملا، معذوری اور دیگر کیسز تھے۔ جو سب کے سب نمٹا دیے گئے ہیں۔
نوائے وقت:لیبر ڈیپارٹمنٹ کو کن مسائل کا سامنا ہے؟
اسد اللہ فیض:ویلفیئر کے حوالے سے ہمارے کچھ ایشوز ہیں۔ ورکرز ڈویلپمنٹ بورڈ کے 8 بلین کے قریب واجبات ہیں،جو ہم نے پے کرنے ہیں، جس میں زیادہ تر میرج گرانٹ،ڈیتھ گرانٹ اور ٹیلنٹ سکالرشپ ہے۔اگر سٹوڈنٹس کو سمسٹر کے بعد فیس نہیں دیتے تو ادارے اگلے سمسٹر میں ان کی رجسٹریشن روک لیتے ہیں۔ ہم فیڈرل سے ڈیمانڈ کررہے ہیں کہ ہمیں ادائیگی کی جائے تاکہ ساتھ ساتھ یہ مسائل نمٹائے جاسکیں۔ ورکرز ویلفیئر فنڈ کی ڈولیوشن مکمل ہوچکی ہے۔ ہم میکانزم صوبائی سطح پر کرنا چاہ رہے ہیں، اس سلسلیمیں ایکٹ منظور ہوگیا ہے، کابینہ کے پاس رولز پینڈنگ ہیں،امید ہے جلد منظوری مل جائیگی۔ اس پہ سی ایم آفس کی بھی توجہ مرکوز ہے۔ اس کے بعد ہمیں امید ہے کہ ہم اپنے طور پر صوبائی سطح پر کولیکشن شروع کریں گے تو ان ذمہ داریوں کے حوالے سے مسائل کافی حد تک کم ہوجائیں گے۔