۔نبیلہ اکبر۔۔۔۔
۔ مزدورکی تعریف یا اس کا مفہوم تلاش کرنا کوئی آسان کام نہیں کیونکہ مزدور کے عمل کو یعنی کہ یہ کہاں سے کام شروع ہو کر کہا ں سےاختتام پذیر ہوتا ہے ایک انتہائی مشکل کام ہے یوں تو معاشرے کا تقریبا ہر فرد ہی ورکر ہوتا ہے اور وہ کسی نہ کسی حیثیت میں خدمات سرانجام دے رہا ہے مثلا گھریلو خواتین گھر کا نظام چلا رہی ہیں مزدوری کرتی ہیں مگر معاشرے میں اس نوعیت کی خدمات کو مزدوری کے طور پر گردانانہیں جاتا اسی طرح کھیتوں میں کام کرنے والے وہ کسان جو اپنی زمین میں کھیتی باڑی کرتے ہیں فصل اگاتے پھر کٹاہی اس عمل کے دوران اس کے اہل خانہ بھی اس کے ساتھ برابر کے شریک رہتے ہیں یہ لوگ بھی خالصتان ورکر ہی ہوتے ہیں مگر ان کے لے ورکر کی اصلاح استعمال نہیں ہوتی عام طور پر تصور کیا جاتا ہے کہ کوئی بھی شخص کسی صنعتی یا کاروباری ادارے میں معاوضے یا احرت کے بدلے میں کوئی بھی ہنر مند یا غیر ھنر مند کام کرتا ہے تو وہ مزدور کہلاتا ہے عالمی یوم مزدور یکم مئی مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے اس دن کو منانے کا مقصد امریکہ کے شہر شکاگو کے محنت کشوں کی اٹھارہ سو چھیاسی میں شکاگو میں سرمایہ دار طبقہ کے خلاف اٹھنے والی آواز کی یاد میں منایا چاتا۔ ہے جب مذدوروں کواپنا پسینہ بہانے والی طاقت نے خون میں نہلا دیا گیا مگر ان جان نثاروں کی قربانیوں نے محنت کشوں کی توانائیوں کو بھرپور کر دیا اورانسانی تاریخ میں محنت و عظمت و جدوجہد سے بھرپور کر دیا مزدوروں کا عالمی دن کارخانوں کھیتوں کھلیانوں کار خا نون سرمائے کی بھٹی میں جلنے والی لاتعداد محنت کشوں کا دن ہے اور یہ محنت کش انسانی ترقی اور تمدن کی تاریخی بنیاد ہیں موجودہ دور میں مزدور دور حاضر کا مظلوم ترین طبقہ ہے ہر سال دنیا بھر میں یوم مزدور پر چھٹی کا اعلان کیا جاتا ہے اور یہ چھٹی وہ مزدور نہیں منا سکتا جن کے لیے دن مختص کیا گیا ہے پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی مزدوری جسمانی جنسی معاشی استحصال ایک عام سی بات تصور کی جاتی ہے مزدور آج بھی لائنوں میں لگ کر اپنی مزدوری کو خیرآباد کہہ کے آٹے کے حصول میں مصروف رہتے ہیں دوسروں کے گھر بنانے والے مزدور اپنے گھر اور ٹھکانہ بنانے کے لئے ترستے رہتے ہیں مزدوروں کی زندگی جو کی تو ہے بھٹو ں پر چائلڈ لیبر لائ کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہو رہی ہے دکانوں پر کام کرنے والی چھوٹے اپنے گھروں کے بڑے ہوتے ہیں جو گاھکوں کی جھڑکیاں سننے کے بعد انتہائی قلیل مزدوری کے ساتھ شام کو اپنے گھر کی دہلیز پار کرتے ہیں مگر حکومت کے اس بارے احکامات سے کاغذوں کی حد تک ہیں یوں تو مزدوروں کا استحصال دنیا بھر میںہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں اس کی شرح بہت زیادہ ہے کار خانون میں کاغزی اجرت اور عملی طور پر اجرت میں فرق ہے لیبر ڈیپارٹمنٹ قائم ہیں مگر جہاں عملہ کی کمی کی وجہ سے قانون پر عمل درآمد بہت کم ہے جس وجہ سے مزدور سے مقررہ وقت سے زیادہ کام کروایا جاتا ہے مقررہ اجرت سے کم تنخواہ دی جاتی ہے ہمارے حکمران کروڑوں روپے الیکشن کمپین پر خرچ کرنے والے غریب ووٹروں سے بلند و بالا دعوے اور وعدے کرنے کے باوجود اقتدار میں آتے ہی ان کے مسائل کے حل سے آنکھیں پھیر لیتے ہیں صرف اپوزیشن میں بیٹھ کر ان کو مزدوروں کا درد ہوتا ہے حکومت کی ناقص پالیسیاں کا ہی نتیجہ ہے کہ ملک میں غربت بے روزگاری مہنگائی میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے لوگوں کو روزگار لگے ہوئے انہیں ان کا حق نہیں ملنا مزدور اپنی حق ہیں کس سے محرو م ہیں اگرچہ دنیا سے غلامی کا خاتمہ ہوگیا ہر انسان آزاد ہے لیکن آج بھی بڑی آبادی کارخانوں فیکٹریوں میں غلامی کی زندگی جی رہے ہیں دنیا میں کروڑوں مزدور جبری مشقت کا شکار ہے جہاں انسان کی مرضی کے خلاف ایسے کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے جس سے نہ صرف زخمی ہونے کا امکان ہے بلکہ جان گنوانےکا بھی خطرہ ہوتا ہے مگر اجرت دینے میں ٹال مٹول کی جاتی ہےمزدور روٹی اور زندگی کی گاڑی کو آگے بڑھانے کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار ہو جاتا ہے کیونکہ اس کو کوئی اور راستہ نظر نہیں آتا کو یہ پتہ ہوتا ہے کہ وہ کما کر لے جائے گا تو اس کے بچوں کو نوالہ حاصل ہوگا ترقی یافتہ ممالک میں مزدور طبقہ کے لئے حکومت نے عوام کے مسائل کے حل کو پہلی ترجیح سمجھتی ہیں غربت بے روزگاری کی خاتمے اور تعلیم و صحت کی سہولتوں کی فراہمی کے لئے ٹھوس اور جامع اور قابل عمل منصوبہ بندی کرتی ہیں یہی وجہ ہے کہ وہاں غربت کی شرح کم ہے یافتہ ممالک میں تو ایک مزدور کے حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے مگر ترقی پذیر ممالک میں مزدور اپنے حق سے نہ واقف رہہنے کےباعث اپنے اجر سے ہمیشہ بلیک میل ہوتا رہا بے روزگاری کے مواقع کم ہونے کے باعث کم اجرت پر بھی اپنے بچوں کو بھی مزدوری پر لگانے پر مجبور ہوگیا دوسری طرف مزدوروں کی آواز اٹھانے والی یونین بھی پاکستان میں ختم ہے شاید یہی وجہ ہے کہ ملک میں ہر گزرتے دن کے ساتھ ہر شعبےمیں لیڈرشپ کا فقدان ہے اور مزدوروں کے مساہل جوں۔ کے توں ہیں مذدوروں کی فلاح و بہبود جامعہ متوازن لیبر پالیسی اور موثرقانون سازی کے بغیر ممکن نہیں کسی حکومت نے مزدوروں کے مسائل کے ازالے کی نیت سے قانون سازی کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کیا پالیسی بنانے والے گروپ میں مزدوروں کا ایک نمائندہ بھی موجود نہیں ہوتا یہ کہنا بھی بجا نہ ہوگا کہ پاکستان میں مزدور پر زندگی تنگ کی جارہی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ مہنگائی کے تناسب سے مزدوروں کی اجرت کو بڑھایا جائے گھریلو ملازم عورتوں کو مردوں کے برابر اجرت دی جائے اور انہیں زچگی کے دوران چھٹی اور تنخواہ کی سہولت دی جائے سفری کارڈ راشن کارڈ بچوں کی مفت تعلیم اور صحت کی سہولیات اور احساس پروگرام میں مزدور کے گھرانے کو رجسٹرڈ کیا جاہےاور لاہنوں میں لگنے کی بجائے بجلی کے بلوں کی طرح گھروں تک رساہی ہو 300 یونٹ تک بجلی مفت فراہم کی جائے سب سے بڑی چیز مزدوروں کے کام کی جگہ پر سردی اور گرمی میں سائے کا مناسب بندوبست پانی اور واش روم کی سہولت مہیا کی جائے گھریلو مزدور اور بھٹہ مزدوروں کی اجرت میں مہنگاہی کے تناسب سےاضافہ کیا جائے مزدور کے بچوں کے لئے بھی سکیورٹی کا مناسب انتظام ہوتا کہ والدین پرسکون ماحول میں نے روزی کما سکیں اگر یہ مزدور چند دن کے لیے آرام کرنے لگ جاہیں تو شاید ہم سب کی زندگی میں ایک ہلچل مچ جاہے مزدوروں کی قدر کریں مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے مزدوری دیں اور مزدور کو خاص طور پر عزت و احترام سے بلائیں