یقیں محکم،عمل پیہم،محبت فاتح عالم
عتیق انور راجہ
ہر سال یکم مئی کو مزدورو ں کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔اگر آج مغرب و امریکہ ،روس،جاپان اور چین اقوام عالم میں معاشی ترقی کی بلندیوں پر مانے جاتی ہیں تو اس میں وہا ں کے مزدور کا بہت بڑا حصہ ہوگا ۔لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے یہ بتادیا تھا کہ محنت کرنے والا اللہ کا دوست ہے ۔ساتھ یہ بھی حکم فرمایا کہ مزدور کو اس کی اجرت پسینہ ختم ہونے سے پہلے ادا کرو۔اصل میں دین اسلام اپنے ماننے والوں سے یہ چاہتا ہے کہ وہ محنت سے دنےا میں اپنا مقام بنائیں۔جیسا کہ ہم نے نصابی کتاب میں پڑھ رکھا ہے کہ ایک مانگنے والا حضورﷺ کی خدمت میں پہنچا تو جناب نے اپنے اصحاب سے یہ نہیں کہا کہ اس بندی کو کچھ دینار ،سونا چاندی یا کھانا دے دو بلکہ ُاس کے لیے کلہاڑی کا بندوبست کروایا اور پھر کہا جاو جنگل میں لکڑیاں کاٹو اور اپنا گزر بسر کرو۔یقینا وہ بندہ یقین والا ہوگا جس نے حکم پر عمل کیا اور کچھ ہی وقت بعد اس کی حالات بہت اچھے ہوگئے۔یکم مئی کے دن کو مزدوروں کا د ن منانے کے پیچھے جو محرکات ہیں وہ میری طرح لکھنے والے ہر سال بیان کرتے رہتے ہیں ۔لیکن دنیا میں کامیابی کا ایک نسخہ ہے کہ انسان اپنے غلطی کو تسلیم کرے اور پھر محنت سے اپنا مستقبل سنوارنے کی کوشش کرے۔حضرت علامہ اقبال ؒ نے کیا خوب فرمایا ہے کہ
یقیں محکم،عمل پیہم،محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردو ں کی شمشیریں
میرا عملی زندگی میں بہت سے لوگوں کی ساتھ اٹھنا بیٹھنا لگا رہتا ہے ۔آج سے دو عشری پہلے کی بات ہے کہ میرا مختلف فیکٹریوں میں جانا ہوا کرتا تھا
ایک حاجی صاحب نے بڑی محنت سے ایک کارخانہ قائم کیا۔ ان کی مال کی کوالٹی ہر کہیں تسلیم کی جاتی تھے لیکن حاجی صاحب یعنی کارخانے کی مالک بہت سخت زبان تھے ۔جو بندہ ان سے اپنی رقم لینے جاتا ۔پہلے اسے اپنے اکاونٹ والوں کی ہاتھوں پریشان کرواتے پھر گھنٹوں دفتر کی باہر بٹھائے رکھتے اور آخر میں دفتر بلا کی بڑے کھردرے لفظو ں میں سخت باتیں کرتے ۔کئی کو حاجی صاحب گالیاں تک دے دیا کرتے ۔میرے سٹاف سے ایک شریف بندہ ہر ہفتے پیسے لینے جایا کرتا اس نے ایک دن پریشانی میں کہا بھائی صاحب میں نے آئندہ اس کارخانے نہیں جانا ۔میں نے پوچھاکیوں؟کہنے لگا وہ حاجی صاحب پہلے صرف بے عزت کیا کرتے تھے لیکن آج انہوںنے نہ صرف اپنے مزدوروں کو بلکہ ساتھ مجھے بھی گالیاں دی ہیں اور ساتھ کہنے لگے دفعہ ہوجاو۔میںنے کہا اچھا کل میں جاوں گا اگلی صبح میں حاجی صاحب کے کارخانے پہنچا،گیٹ پر مسلح گارڈز کو اپنا نام لکھوانے کی بعد دفتر کی طرف رخ کیا تو ایک صاحب بھاگتے ہوئے آئے۔اوہ بھائی کدھر؟بنا اجازت دفتر کیسے گھسے جارہے ہو۔عرض کی کہ پیسے لینے ہیں اورحاجی صاحب سے ملنا ہے کہنے لگا جاو پہلے اکاونٹ والوں کی پاس حاضری لگواو،اگر رقم زیادہ ہے تو منشی صاحب کو چائے پانی دینا وہ جلدی کھاتہ تیار کردیں گے۔میں نے کہا میں نے صرف حاجی صاحب کو ہی ملنا ہے ۔میں بنا اجازت حاجی صاحب کی دفتر داخل ہوا اور کرسی پہ بیٹھتے ہی کہا حاجی صاحب !اپنے دراز سے پتی نکالیں اور ملاز م کو کہہ کے چائے بنوائیں عمر رسیدہ حاجی صاحب بولے’ اوئیےتوں مینوں موت دا فرشتہ لگنا ایں‘۔کچھ وقت بات چیت ہوئی اور پھر حاجی صاحب نے کہا آئندہ تم نہ آیا کرنا ۔تمہاری بندے کو پریشان نہیں کروں گا ۔بعد میں اکاونٹ والوں سے ملاقات کی تو وہ بولے ہم بے بس ہیں ۔حاجی صاحب کو ان کی سخت زبان اور لاڈلے بیٹے نے برباد کر کے رکھ دیا ہے ۔حاجی صاحب کاصاحبزادہ ہر روز شام ڈھلتے اچھے خاصے پیسے جیب میں ڈال کے عیاشی کے لیے لاہور چلا جاتا ہے ۔ فیکٹری میں تنخواہیں دینا اور ادائیگیاں کرنامشکل ہوچکا ہے ۔کچھ ہی سال بعد وہ کارخانہ بند ہوگیا ۔
صاحبو !آج یکم مئی ہے ۔چلیں آج یہ پیغام عام کریں کہ مزدور کو پوری اُجرت کی ساتھ عزت بھی دینی ہے۔پاکستان آج معاشی تباہی کے دہانے پہ کھڑا ہے ۔ معیشت نہ تو دنوں میں مضبوط ہو سکتی ہے اور نہ ہی پاکستان عالمی مالیاتی اداروں کےچنگل سے نکل سکتا ہے ۔اب کرنے والا کام یہ ہے کہ قوم کے سیانے سر جوڑ کی بیٹھیں اور ملکی پیداور بڑھانے کے لیے مختصر اور طویل مدتی منصوبے تشکیل دینے کی کوشش کریں ۔حکومت کاروباری لوگوں سے تعاون حاصل کرے اور تعلیمی اداروں میں بچوں کو کاروباری گر بتائی جائیںکہ اپنا کاروبار کیسے کرنا ہے،مارکیٹ میں کاروباری بندے کی ساکھ کی کیا اہمیت ہوتی ہے،اور کسی بھی کاروبار میں مزدور کا کردار کتنا اہم ہوتا ہے یہ سمجھائیں تا کہ جب ہماری اگلی پیڑھی عملی میدان میں آئے تو انہیں پتہ ہوکہ کیسے اپنا نام بنانا ہے ۔کیسے ترقی کرنی ہے