مضمون نگار: رانا ضیاءجاوید جوئیہ
یکم مئی یوم مزدور کے طور پر پوری دنیا میں پورے زور شور سے منایا جاتا ہے ہمارے ملک عزیز میں بھی یکم مئی کو باقاعدہ چھٹی ہوتی ہے لیکن بعض اوقات ایسی صورتحال بھی ہمارے بہت سے اداروں میں ہوتی ہے کہ جو مزدور ڈیلی ویجز پر کام کرتے ہیں اس دن چھٹی ہونے کی وجہ سے انہیں اس دن کی تنخواہ تک نہی ملتی اسی طرع جو مزدور باقاعدہ مزدوری کر رہے ہوتے ہیں اور جن کو شام کے وقت مزدوری ملنا ہی اس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کے لئے اس دن کا راشن خرید سکیں یکم مئی کو چھٹی ہونے کی وجہ سے اور لیبر لاز کے ڈر کی وجہ سے اس دن انہیں کام نہی ملتا جس کا نتیجہ بعض اوقات یہ نکلتا ہے کہ وہ بیچارے اس یوم تکریم مزدوراں پر اپنے بچوں کو کھانا کھلانے کے لئے انتہائی مشکل میں پھنس جاتے ہیں یوم تکریم مزدوراں کے حوالے سے ہمیں صرف چھٹی کرنے اور چھٹی منانے تک محدود رہنے کی بجائے اس سے آگے کچھ عملی طور پر کرنا ہو گا مثال کے طور پر اگر اس دن چھٹی منانا ہو تو حکومت یا تو خود اس دن سب مزدوروں کی اجرت ادا کرے یا پھر ایسا میکانزم بنائے کہ ان کے ادارے اور آجر انہیں اس دن با تنخواہ چھٹی دیں اسی طرع میڈیا کے ذریعے ایک بھرپور مہم ایسی چلائی جائے کہ جس کے ذریعے قوم کو بتایا جائے کہ ہماری ترقی صرف اور صرف مزدور کی محنت کی رہین منت ہے اگر مزدور کام نہ کرے تو ترقی تو دور کی بات ملک چل بھی نہ سکے کسی بھی قوم اور ملک کی ترقی کا دارومدار اس کے مزدوروں پر انحصار کرتی ہے
لیبر لاز تو بنا دیئے جاتے ہیں لیکن کوئی حکومت یہ نہی سوچتی کہ قانون پر عملدرآمد کروانے کے لئے جس طرع کے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے وہ تو بڑے بڑے امرا اس میں مشکل محسوس کرتے ہیں پھر بیچارا مزدور جسے اپنی روٹی پورا کرنا مشکل ہے وہ ان لیبر لاز کی خلاف ورزی پر کیسے کوئی ایکشن کروا سکتا ہے اس سب پر ایک اور بات انتہائی تکلیف دہ کہ ملک کا نظام اہسا بن گیا ہے کہ بڑے بڑے سرمایہ دار جو چیزیں بنانے کے کارخانے چلا رہے ہوتے ہیں وہ تو ٹیکس ادا نہی کرتے اور بیچارہ غریب مزدور ایک ماچس بھی خریدے تو اس پر لازمی ٹیکس ادا کرتا ہے پھر امرا کی عیاشیوں کے لئے تو حکومتی سطح پر چیزیں امپورٹ بھی کر لی جاتی ہیں جب کہ غریب کی ضرورت کی چیزیں بھی پہلے ایکسپورٹ کر دی جاتی ہیں اور پھر واپس امپورٹ کا ڈرامہ رچا کر ان بنیادی ضروریات کی چیزوں کو اتنا مہنگا کر دیا جاتا ہے کہ غریب مزدور بیچارہ اپنی ضروریات بھی خرید نہی پاتا
آج یوم مزدور کی مناسبت سے روزنامہ نوائے وقت کی وساطت سے کچھ تجاویز ارباب اختیار کے سامنے پیش کرتا ہوں
مزدوروں کی اجرت یا تو اتنی کر دی جائے کہ وہ ضروریات زندگی لے سکیں یا پھر ضروریات زندگی کو اتنا سستا کر دیا جائے کہ مزدور انہیں با آسانی خرید سکیں دوسرے یہ کہ ٹیکس کے حوالے سے بڑے سرمایہ داروں کے لئے ضروریات زندگی اور آسائشات پر زیادہ سے زیادہ ٹیکس لگایا جائے لیکن غریب مزدوروں کے حوالے سے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ مزدور طبقہ ضروریات زندگی کی تمام اشیا ایسی جگہ سے خرید سکے جو ٹیکس فری ضروریات زندگی کا بازار ہو
آسائشات جو امرا کے لئے ہیں یا جو غیر ضروری چیزیں جیسا کہ سگریٹ وغیرہ ہیں ان پر زیادہ سے زیادہ ٹیکس لگایا جائے مثال کے طور پر سگریٹ کے ایک پیکٹ کو خواہ 10000 روپے کا بھی کر دیا جائے تو ہم اسے مہنگا نہی کہہ سکتے کیونکہ سگریٹ پینا ضروری نہی ہے لیکن آٹا جیسی بنیادی ضروریات پر غریب مزدور کو اتنی سبسڈی دے دی جائے کہ وہ مزدور کی پہونچ سے باہر نہ ہو
اسی طرع مزدوروں کی عظمت کے حوالے سے ہمیں ایک اور پہلو سے بھی کام کرنے کی ضرورت ہے کہ اجرت متعین کرنے کے لئے تعلیم یا تجربہ کو معیار بنانے کی بجائے یہ معیار بنایا جائے کہ جو کام جتنا مشکل اور سخت ہو اس کی اجرت بھی اتنی ہی زیادہ ہو اور جو کام جتنا آسان ہو اس کی اجرت اتنی ہی کم ہو مثال کے طور پر ایک پولیس کا سپاہی جس نے سارا دن روڈ پہ کھڑا رہنا ہے دھوپ میں بھی اور بارش میں بھی اس کی تنخواہ زیادہ ہو اور ایک پولیس انسپکٹر جنرل جس نے صرف دفتر میں بیٹھا رہنا ہے اس کی تنخواہ کم ہو اسی طرع اینٹین اٹھانے والے مزدور کی تنخواہ زیادہ ہو اور میرے جیسے دفتر مین بیٹھے افسروں کی تنخواہیں کم ہوں
اسی طرع ہاوسنگ کے لئے گورنمنٹ ایک جیسے گھر بنائے اور اپنے عوام کو کرایہ پر دے لیکن ایک ہی سائز کے گھر کا کرایہ امیر آدمی سے زیادہ لیا جائے اور غریب مزدور سے کم کرایہ لیا جائے
ایک اور انتہائی ضروری بات کہ مزدور اور امرا کے بچوں کے لئے تعلیمی سہولتیں ایک جیسی ہوں وہی مواقع مزدور کے بچوں کے لئے ہوں جو امرا کے بچوں کے لئے ہیں تعلیم ایک ہی یکساں نصاب والی ہو جو ہر ایک کی پہونچ میں ہو اسی طرع صحت کی سہولت ہر ایک کے لئے اور بالخصوص مزدوروں کے لئے بالکل مفت کر دینا چاہئے اور سب سے بڑھ کر مزدور کو عزت دی جائے اور پسینہ خشک ہونے سے پہلے نہ صرف مزدوری دے دی جائے بلکہ مزدور کا شکریہ بھی ادا کیا جائے
مزدوروں کے لئے بہترین خوراک بھی ریاستی سطح پر مہیا کی جائے اور مزدوروں کی عزت احترام اور آسان زندگی کے لئے ایسے قوانین بنائے جائیں جو اسلام نے ج سے چودہ سو سال پہلے متعارف کروائے اور بلا شک و شبہہ مزدور کی زندگی بہتر بنانے کے لئے لوگوں کا حکدمت پر ایسا اعتماد بنایا جائے کہ لوگ اپنی زکوت کے پیسے حکومت کو دیں اور حکو مت ان پیسوں کے ذریعے مزدوروں کی نہ صرف ضروریات پوری کرے بلکہ ان کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لئے کچھ عملی طور پر کر سکے
جس طرع کسی بھی انسان کو زندگی گزارنے کے لئے ضروریات زندگی کے ساتھ ساتھ عزت کی ضرورت یوتی ہے بالکل اسی طرع مزدوروں کو بھی عزت اور احترام کی ضرورت ہوتی ہے ہمیں چاہئے کہ ہم مزدوروں سے کام بھی عزت سے لیں اور ہمیشہ انکے شکر گزار رہیں کہ وہ ہمارے لئے کام کر رہے ہیں اور ایک اور بات کہ اجرت کے حوالے سے کم سے کم اجرت والے قوانین صرف سرکاری ملازمین کے فائدے کے لئے نہ بنائے جائیں بلکہ انہیں پرائیویٹ ملازمین کے لئے بھی ممکن بنایا جائے
ضروریات زندگی سستی ہونے کے ساتھ ساتھ تعلیم اور صحت کی سہولیات بھی مزدوروں کے لئے مکمل مفت ہوں اور امرا پر اور آسائشی چیزوں پر زہادہ سے زیادہ ٹیکس لگائے جائیں