تحریر : محمد حمزہ عزیز
چند دن پہلے، میرے ایک دوست یونیورسٹی میں اپنی پروفیسر سے ریسرچ کے حوالے سے کچھ سوال پوچھ رہے تھے۔ ابھی اس سنجیدہ گفتگو کو شروع ہوئے صرف پانچ منٹ ہی ہوئے تھے کہ عمارت کی پہلی منزل سے چھ سات طلبہ کی اونچی آواز میں گانا گانے کی مشق نے موضوع سے ہٹا دیا۔ صبر کیا لیکن گانے رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ میرے دوست نے اپنی پروفیسر سے سوال کیا کہ “کیا یہ ہے پاکستان کا مستقبل ؟”۔ پروفیسر نے انہیں جواب دیا کہ “یہ تلخ حقیقت ہے کہ اب پاکستان میں تعلیم اس کے لیے نہیں جو پڑھنا چاہتا ہے، بلکہ اس کے لیے ہے جو پڑھائی کے اخراجات کی استطاعت رکھتا ہے۔”
دنیا میں کسی بھی معاشرے میں خواندگی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ پڑھے لکھے افراد معاشرے کی ترقی و خوشحالی کے ضامن ہوتے ہیں اور یہی لوگ معاشرے میں بہترین انتظامات اور مسائل کا حل پیش کرسکتے ہیں، اور ایک نا خواندہ معاشرہ کسی جنگل کی طرح ہوتا ہے جہاں کوئی قانون نہیں ہوتا، بلکہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا سسٹم ہوتا ہے۔ تعلیم انسان میں شعور پیدا کرتی ہے۔ دنیا کے جتنے بھی بڑے لیڈر گزرے ہیں سب نے تعلیم پر بہت زور دیا ہے۔ کسی بھی معاشرے کی ترقی کا راز تعلیم میں پوشیدہ ہے، تعلیم سے صرف ایک فرد کی شخصیت نکھرنے کے علاوہ معاشرے پر بھی مثبت اثرات پڑتے ہیں۔یہ سچ ہے کہ تعلیم ایک ایسا طاقتور ہتھیار ہوتا ہے جس کے ذریعے آپ دنیا بدل سکتے ہیں لیکن اس امر کے لئے تعلیمی نظام کا عمدہ ہونا بھی ضروری ہے مگر بد قسمتی سے ہمارا موجودہ نظام تعلیم مسائل میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔پاکستان میں تعلیم ایک کاروبار بن گیا ہے۔ یہاں دو طرح کے تعلیمی نظام نظر آتے ہیں ایک اردو میڈیم اور دوسرا انگریزی میڈیم۔ اردو میڈیم سرکاری اور محلے کے چھوٹے سکولوں کے لیے ہے۔ یہاں اردو مضامین کو اہمیت دی جاتی ہے۔ یہاں پڑھنے والے طلباء کے لئے انگریزی زبان ہمیشہ ایک ڈراو¿نا خواب بن کر رہتی ہے۔ اگر انگریزی میڈیم والے سکولوں کی بات کریں تو ان کی فیسیں بہت زیادہ ہوتی ہیں، ان سکولوں میں صرف انگریزی زبان کی تعلیم پر ہی توجہ دی جاتی ہے۔ ان سکولوں میں اسلامیات اور اردو جیسے مضامین کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی، نظام تعلیم بہتر نہ ہونے کی ایک بنیادی وجہ ہے فیسوں میں بلا وجہ کا اضافہ ہے۔ اس کی وجہ سے طلباء معیاری تعلیمم حاصل نہیں کر پاتے اور اردو میڈیم والے بچے ہمیشہ احساس کمتری کا شکار رہتے ہیں۔ موجودہ نظام تعلیم کی ایک اور بڑی خرابی جو بہت سال سے چلی آ رہی ہے کہ طلباءکی ذہنی نشو و نما کی بجائے زیادہ نمبر حاصل کرنے پر ہی زور دیا جاتا ہے۔ آج بھی ہمارے ملک میں زیادہ نمبر حاصل کرنے والے کو ہی ذہین سمجھا جاتا ہے اور باقی بچوں کو معمولی تصور کیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ سب محض رٹا سسٹم سے بھی ممکن ہے -ہمارے نظام میں پریکٹیکل کام کی کوئی اہمیت نہیں۔ طلباءکو ایک مخصوص نصاب کے ساتھ باندھ دیا گیا ہے۔ دوسرے ممالک میں کوکنگ کالجز، ہیر ڈرسنگ کالجز اور اس طرح دوسرے تعلیمی ادارے جہاں پریکٹیکل کاموں پر توجہ دی جاتی ہیں بہت کامیاب ہیں اور وہاں ہر شخص اپنے کام میں فخر محسوس کرتا ہے۔ ہائیر ایجوکیشن کے بعد طلباءکی رہنمائی کا بھی کوئی سسٹم موجود نہیں کہ کس طالب علم کے لئے کون سی فیلڈ زیادہ بہتر ہے، اس طرح ٹیلنٹ بھی سامنے نہیں آسکتا۔ آپ خود ہی سوچیں کہ اگر بابر اعظم کے والد ان کے ٹیلنٹ پر یقین کرنے کی بجائے انہیں بھی کتابوں کے پیچھے لگائے رکھتے تو آج پاکستان کو اتنا زبردست بلے باز نہ ملتا- زیادہ تر طلباءکو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ انہوں نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد کیا کرنا ہے۔ نوکریوں کی تلاش میں پھرتے طلباء بے روزگاری سے پریشان ہیں - 80 فیصد طلبہ ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے بھی کسی قسم کی سنجیدگی دکھائی نہیں دیتی کہ طلباءاور تعلیمی نظام کے اندر کن اصلاحات کی ضرورت ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح وطن عزیز پاکستان میں بھی تعلیم کی ترقی کے بلند و بانگ نعرے لگائے جاتے ہیں۔ سکالرشپس اور وظائف کے اجراء کے لئے کروڑوں کے فنڈز مختص کئے جاتے ہیں۔ مگر آخر میں جب تحقیق ہوتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ وفاقی سطح سے یونین کونسل سطح تک کے افسروں کی ملی بھگت سے وہ فنڈز ان کے ذاتی اکاو¿نٹس میں منتقل ہوچکے ہیں۔ میرے ایک دوست نے بلوچستان میں کتابیں چھاپنے کاحکومت کی طرف سے ٹنڈر اٹھایا تھا اور انہوں نے مجھے بتایا کہ وہاں اتنی زیادہ کرپشن ہے کہ ایجوکیشن بورڈ کے چند افسروں کی وجہ سے تقریبا 250 سے 300 سرکاری سکولوں میں کتابیں نہیں پہنچ پاتی، کیونکہ وہ پیسے افسروں نے اپنے لیے غائب کر لیتے ہیں۔ صاحب استطاعت طبقہ سرکاری نظام تعلیم کی بجائے پرائیویٹ نظام تعلیم کی طرف جانا زیادہ پسند کرتا ہے۔ تجربے کی بنا پر بات کرتا ہوں کے زیادہ تر پرائیویٹ ادارے پڑھے لکھے جاہل بنا رہے ہیں۔ تعلیم کو پیچھے چھوڑ کر دوسری کاموں میں بچوں کو مصروف کردیا ہے، بچے اب یونیورسٹیوں میں یہ دیکھ کر داخلہ نہیں لیتے کہ تعلیم کا معیار کیسا ہے، بلکہ یہ دیکھتے ہیں کہ یہاں ہر سال فنکشنز کتنے ہوتے ہیں اور سوسائٹی کتنی ہیں۔ پڑھائی سے زیادہ یونیورسٹیاں موج میلے کی جگہ بن چکی ہے۔ نہ کوئی پراپر ڈریس کوڈ ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی ادب و آداب، لبرل ایجوکیشن کے نام پر گندگی اور فحاشی پھیلاتے ہیں لیکن یونیورسٹی کبھی کسی کو کچھ نہیں کہتی کیونکہ ان کا کاروبار تو دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہوتا ہے اور اگر انہوں نے اس لبرل نظام پر روک تھام کی تو ان کا کاروبار ٹھپ ہوجائے گا۔ پھر وہاں پر کچھ بچے باغی بن جاتے ہیں، کچھ بیچ میں ڈگری چھوڑ دیتے ہیں اور جو چار سال کے بعد فارغ ہوتے ہیں پھر وہ حکومت کو گالیاں دیتے ہیں کہ ملک میں نوکری کرنے کے مواقع نہیں ہیں۔پاکستان کے معاملے میں روز اول سے تعلیمی نظام میں بے شمار نقائص رہے ہیں۔ ہمیں دنیا کے ساتھ چلنے اور اپنے نظام تعلیم کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ دوسری اہم تجویز تعلیمی بجٹ میں اضافے کی ہے۔ پچھلے 2023-2024 والے بجٹ میں تعلیمی بجٹ بڑھایا گیا تھا لیکن حالات دیکھ کر ایسا نظر آ رہا ہے کہ مزید بجٹ درکار ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نجی اور سرکاری سکولوں میں نظام تعلیم یکساں ہو۔ یکساں قومی نصاب کا دعویٰ ہم کورونا سے بھی پہلے کا سنتے آ رہے ہیں لیکن اس پر کوئی عمل نہیں کیا گیا۔ ہمارا موجودہ تعلیمی نظام معاشرے کو طبقات میں تقسیم کررہا ہے۔ معیار میں، سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے کسی حد تک ایک دوسرے سے مختلف خیالات کے طالب علم پیدا کر رہے ہیں۔تعلیمی اداروں کی پیسوں کے پیچھے دوڑ سے تعلیمی نظام کا بیڑا غرق ہوچکا ہے۔ ہمیں قابل اور پڑھے لکھے لوگوں کو اس ایجوکیشن سیکٹر کی سر براہی دینی ہوگی کیونکہ اگر تعلیم کے حوالے سے معاشرہ اسی چلتا رہا تو حالات بد سے بدتر ہوجائیں گے -