راولپنڈی اسلام آباد میں راقم کا ایک دوست ہوا کرتا تھا آغا ریاض السلام ، راولپنڈی کی سیاست میں اپنے زمانے کا س±لجھا سیاستدان اور زیادہ تر لوگ اسے سیاست کے حوالے سے ہی جانتے تھے جبکہ بہت کم لوگ روحانیت کے میدان میں اسکی کامیابیوں سے واقف تھے۔ راولپنڈی باڑہ بازار کے سامنے رابعہ منزل میں پیپلز سیکرٹریٹ کے نام سے اسکا ڈیرہ آباد تھا۔ خاکسار کا جب بھی لاہور سے اسلام آباد انا ہوتا تو کم از کم ایک شام رابعہ منزل کی چھت پر راقم اور موصوف دونوں اکٹھے مغرب کی اذان ضرور س±نتے جسکے پیچھے جو فلسفہ تھا اس پر پھر کبھی بات ہو گی۔ سردست عرض کرتا چلوں ایک دن اسی رابعہ منزل کی چھت پر بیٹھے علم کی بنا پر مستقبل کے حوالے سے قیاس آرائی یا پیشگوئی کے حوالے سے بات چیت چل رہی تھی کہ ایسی باتوں کی صحت میں کتنا سچ ہوتا ہے۔ آغا کہنے لگا کہ تمہیں پتا ہے اللہ تعالیٰ نے روز اول سے آسمانوں پر فیصلے لکھ چھوڑے ہیں۔ وہ کہنے لگا کہ جسطرح سائنسدانوں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ خلاءمیں ایک space بیریئر ہے جیسے کراس کرنے کیلیئے ایک مخصوص فورس کی ضرورت ہوتی ہے ا±سی طرح روحانیت کے میدان میں بھی مجاہدہ کرنے والوں اور اہل علم کو اللہ کی طرف سے ایک ایسی طاقت عطا ہوتی ہے جسکی بناءپر وہ اس بیریئر کے اس پار دیکھنے کی صلاحیت حاصل کر لیتے ہیں اور پھر آسمانوں پر اللہ کے لکھے فیصلوں کی ایک دھندلی سی تصویر دیکھ پاتے ہیں جنکے امکان کی حد تک ظہور کی گاہے بگاہے اپنی باتوں میں ذکر کر جاتے ہیں۔
آغا کی اس تھیوری یا فلسفے کی روشنی میں ان دنوں اہل نظر اور اہل علم لوگوں کی جب یہ باتیں س±نتا ہوں کہ یہ لوگ اب پاکستان کو ترقی کے سفر کی طرف ٹیک آف کرتے دیکھ رہے ہیں تو معروضی حالات، زمینی حقائق، عمومی سماجی رویوں اور انفرادی سطح پر قوم کی سوچ اور عمل کے تناظر میں سچ جانیئے صاحب علم لوگوں کی یہ بات مجھے دیوانے کا ایک خواب سا لگتی ہے لیکن یقین جانیئے 26 اپریل بروز جمعہ جس سطح پر ایف بی آر میں وزیراعظم کی وہ سرجیکل اسٹرائیک دیکھی جس میں انھوں نے گریڈ اکیس اور بائیس کے مخصوص شہرت والے افسران کی جسطرح اکھاڑ بچھاڑ کی اسے دیکھ کر لگا کہ پاکستان کی ترقی کا معجزہ اب ہو کر رہے گا۔ ایف بی آر کے حوالے سے پچھلے کئی ماہ سے سوشل میڈیا پر اپنی کمپئین اور اس فورم پر اپنے کئی کالمز میں یہ خاکسار بہت کھل کر اس بات کا اظہار کر رہا تھا کہ گو وزیراعظم اور آرمی چیف اس ملک کی معشیت اور اسکو لگے گ±ھن، کرپشن اور سمگلنگ پر بہت متفکر دکھائی دے رہے ہیں لیکن عملی طور پر جو سٹیٹس کو چل رہا ہے اسے دیکھ کر لگ نہیں رہا کہ حکومتی سطح پر اسکے قلع قمع کیلیئے کوئی واضع پالیسی تشکیل دی جا رہی ہے۔ جلے دل کے ساتھ اپنے 26 اپریل کے کالم “ کامیاب ریاست” میں کچھ ایسے دستاویزی حوالے بھی دیئے کہ اگر حکومت ان دستاویز میں دستیاب حقائق کی ہی مکمل چھان بین کر لے تو ایسے ہوشربا انکشافات سامنے آ سکتے ہیں کہ پھر اس محکمہ کی گندی مچھلیاں اپنے آپکو کس صورت بچا نہیں سکیں گی۔ مجھے نہیں ا±مید تھی کہ ہمارے ادارے میں شائع یہ کالم حکومت کی توجہ کا اتنی س±رعت کے ساتھ مرکز بنے گا کہ اسکی اشاعت کے بارہ گھنٹے کے اندر وزیراعظم کو سرجیکل اسٹرائیک کرنی پڑ گئی۔
مرشد جناب مجید نظامی اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ سچ میں بڑی طاقت ہوتی ہے اور جب سچ اپنے سفر پر نکلتا ہے تو یہ خود بخود اپنا راستہ بنانا شروع کر دیتا ہے۔ ایک طرف جب وزیراعظم ایف بی آر میں ان سرجیکل سٹرائکس پر نکلے وہیں پر انھوں نے اسی ایف بی آر میں متعارف ایک سسٹم ٹریس اینڈ ٹریک پر بھی اپنی تشویش کا اظہار کیا اور دستیاب رپورٹس کی بنیاد پر انھوں نے کہا کہ 2019ءسے جب سے یہ سسٹم متعارف ہوا اس وقت سے لیکر ابتک اس سسٹم میں موجود نقائص کی بدولت قومی خزانے کو اربوں نہیں کھربوں کا نقصان ہوا۔
اہل فکر کا ایمان ہے کہ انسان کا مو¿قف سچائی پر مبنی ہو تو اسکی گواہی کیلئے اسباب قدرت خود پیدا کر دیتی ہے۔ خ±دا کی قدرت دیکھیں ادھر وزیراعظم اس سسٹم پر اپنے تحفظات کا اظہار کر رہا تھا ادھر اسی وقت لاہور میں کسٹم اپریزمنٹ کلکٹریٹ (ویسٹ) کی کلکٹر زہرہ حیدر اپنے سٹاف کے ساتھ ان سات کنٹینرز کو روکے کھڑی تھی جو کاغذات میں ٹائر سکریپ کے نام پر منگوائے گئے تھے اور جو کراچی میں ایک لمبے عرصے سے اسی سسٹم کے تحت گرین چینل پر کلیر ہو رہے تھے۔ چونکہ لاہور میں ٹائر سکریپ کے نام پر تاریخ میں یہ پہلی امپورٹ تھی اور یہ کلکٹر صاحبہ بھی حال ہی میں یہاں پوسٹ ہو کر آئی تھی تو ضرورت سے زیادہ ویجلنٹ ہوتے ہوئے موصوفہ نے جب ان سات کنٹینروں کو اپنی موجودگی میں کھلوایا تو ان میں ٹائر سکریپ کی بجائے تقریباً ایک ارب روپے کے لگ بھگ مالیت کے موبائل فونز، لیب ٹاپ، آرٹیفشل جیولری، بھارتی ساڑھیاں اور کپڑا فلٹرز وغیرہ نہ جانے اور کیا کچھ برآمد ہوا جس پر کروڑوں روپے ڈیوٹی بنتی ہے۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ اصلتاً ان کنٹینروں نے کراچی ہی میں حسب معمول کلیر ہونا تھا لیکن اس دفعہ مافیا کو شک تھا کہ شائد وہاں انکی دال نہ گلے لہٰذا انھوں نے سوچا کہ لاہور ویسٹ کی کلکٹر نئی نئی ہے اور ابھی اپنے سٹاف پر اسکی اتنی بھی گرفت نہیں ہے اس لئے یہ جگہ انکے لئے موزوں ترین ہو سکتی ہے لیکن ا±نھیں کیا پتا تھا کہ نئی کلکٹر صاحبہ کس عزم کی مالک ہے اور اوپر سے اللہ نے وزیراعظم کو بھی تو سچا ثابت کرنا تھا۔ بات پھر وہی جگہ کی بندش کی وجہ سے کالم کا اختتام کرنا پڑ رہا ہے لیکن وزیراعظم صاحب اسی ایف بی آر کے محکمہ کسٹم میں “اکشن “ کے نام پر جو مکروہ دھندہ ہو رہا ایف بی آر پر وزیراعظم کی سرجیکل سٹرائیک
ہے ایک نظر اس پر بھی
٭....٭....٭