پاکستان کے مفکر اور حکیم الامت قومی شاعر علامہ اقبال نے کم و بیش 100 سال پہلے مزدوروں اور محنت کشوں کی حالت زار کے بارے میں کہا تھا-
مکر و فن کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات
دست دولت آفریں کو مزد یوں ملتی رہی
اہل ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکوٰة
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات
علامہ اقبال کا فکر اور فلسفہ درست ثابت ہوا اور آج نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ پاکستان کے مزدور اور کسان لاوارث ہو چکے ہیں ان کی کوئی آواز نہیں ہے-پاکستان کے جاگیردار اور سرمایہ دار بڑی ڈھٹائی سنگدلی اور بے شرمی کے ساتھ محنت کشوں کا استحصال کر رہے ہیں-ریاست کے تمام ادارے بشمول عدل و انصاف، ان ظالم اور سنگ دل سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں-
ایف بی آر کی مستند رپورٹ کے مطابق سرمایہ دار جاگیردار تاجر اور صنعت کار ہر سال دو کھرب 24 ارب روپے کا ٹیکس چوری کر لیتے ہیں- پاکستان دنیا کا واحد بدقسمت ملک ہے جس میں ٹیکس غریب عوام دیتے ہیں اور عیش و عشرت حکمران اشرافیہ المعروف" بدمعاشیہ "کرتی ہے-
ہر سال جب گندم کی فصل تیار ہوتی ہے تو حکومت اور بڑے تاجر دونوں مل کر کسانوں کو بلیک میل کرتے ہیں ان کا استحصال کرتے ہیں اور ان کو گندم کی پوری قیمت ادا نہیں کی جاتی - جب کسان اپنے بنیادی حقوق کے لیے پرامن احتجاج کرتے ہیں تو ان پر جبر و تشدد کیا جاتا ہے - پاکستان میں آئین کی عملداری اب ختم ہو چکی ہے- آئین میں پاکستان کے شہریوں کو جو بنیادی حقوق دیے گئے تھے وہ بے دردی کے ساتھ پامال کیے جا رہے ہیں-آج مزدوروں کا عالمی دن ہے جو ہر سال پوری دنیا میں منایا جاتا ہے-یہ دن امریکہ کے شہر شکاگو کے ان مزدوروں کی یاد دلاتا ہے جنہوں نے مزدور طبقے کے حقوق کے لیے اپنی جانیں قربان کر دیں- شکاگو کے مزدوروں نے ایک پرامن جلوس نکالا اور مطالبہ کیا کہ ان کے کام کے اوقات 14 گھنٹے سے کم کر کے آٹھ گھنٹے کیے جائیں- جلوس میں شریک مزدوروں کے ہاتھوں میں سفید پرچم تھے -پولیس نے سرمایہ داروں کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے پرامن مزدوروں پر گولی چلا دی سینکڑوں مزدور ہلاک ہو گئے جبکہ چار لیبر لیڈروں کو پھانسی کی سزا سنائی گئی - ان میں سے ایک مزدور رہنما نے اپنے گلے میں پھانسی کا پھندا ڈالتے ہوئے کہا سرمایہ دارو تم ہمیں مار سکتے ہو مگر ہماری تحریک کو ختم نہیں کر سکتے- شکاگو سے جنم لینے والی مزدور تحریک آج تک پوری دنیا میں چل رہی ہے- پاکستان میں مزدور تحریک ہمیشہ کمزور رہی ہے جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مزدوروں نے کبھی اتحاد کا مظاہرہ نہیں کیا حالانکہ ان کے پاس کھونے کو کچھ نہیں جبکہ پانے کو سب کچھ ہے - حکومت اور سرمایہ داروں نے مزدوروں کے آپس کے انتشار سے ہمیشہ فائدہ اٹھایا اور مکرو فن کی چالوں سے بازی لے گئے-
پاکستان کے مزدور بے بس اور مجبور ہیں مزدور کے گھر برسوں تک مزدور ہی پیدا ہو رہے ہیں- جو کسان دھرتی کا سینہ چیر کر اناج اگاتا ہے اس کے بچے نان جویں کو ترستے رہتے ہیں- کپڑا بننے والے مزدور کو اپنے بچوں کے تن ڈھانپنے کے لیے کپڑا میسر نہیں ہے- آج نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ مزدور اور محنت کش افراد بھوک کی وجہ سے خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں - حالانکہ مزدور ایک ایسی قوت ہیں جن کے دم سے زندگی کا کاروبار چل رہا ہے- مزدور اگر فیصلہ کر لیں اور اتحاد کا مظاہرہ کریں تو پاکستان میں ہر قسم کا پہیہ رک جائے اور زندگی مفلوج ہو جائے- پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ذوالفقار علی بھٹو نے مزدوروں کے حقوق کے لیے انقلابی لیبر پالیسی نافذ کی جس کے مطابق مزدوروں کو روزگار کا تحفظ دیا گیا اور انہیں روٹی کپڑا مکان تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولتیں فراہم کی گئیں -
قران سرمایہ داری اور جاگیرداری کی اجازت نہیں دیتا اس کے باوجود اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کا شمار دنیا کے امیر ترین افراد میں ہوتا ہے -قران نے ارتکاز دولت کو فساد قرار دیا ہے -دولت کی سنگ دلانا غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے معاشی اجارہ داریاں پیدا ہو چکی ہیں جن کی وجہ سے خیبر سے کیماڑی تک فساد پھیل چکا ہے- کسی شہر میں بھی امن چین اور سکون نہیں ہے- ان حالات میں مختلف نوعیت کے جرائم تیزی کے ساتھ بڑھ رہے ہیں-احساس محرومی نے لوگوں کی وطن کے ساتھ محبت کو کم کر دیا ہے-قران پاک کی سورة التوبہ کی آیت نمبر 34 اور 35 میں اللہ تعالیٰ نے دوٹوک اور واضح الفاظ میں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو انتباہ کیا ہے-
” جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں (سرمایہ دار جاگیر دار)اور اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خبر سنا دو اس دن جب ان کے اس سونے اور چاندی کو جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا پھر اس سے ان کی پیشانیوں ان کے پہلوو¿ں اور ان کی پیٹھوں کو داغاجائے گا۔ یہ ہے جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تو اب چکھو اس کا مزہ جو تم جمع کرتے رہے ہو-“
پاکستان کی موجودہ حکومت سرمایہ داروں تاجروں اور جاگیرداروں کی حکومت ہے اس سے مزدوروں اور محنت کشوں کی بھلائی کی توقع ہی نہیں کی جا سکتی- آج ہر روز محنت کش مصائب اور مشکلات کی بنا پر خودکشیاں کر رہے ہیں اور حکومت بے حسی کا مظاہرہ کرتی نظر آتی ہے - اسے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا وہ قول یاد نہیں ہے جس کے مطابق انہوں نے فرمایا تھا کہ اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوک سے مر گیا تو عمر قیامت کے روز جواب دہ ہوگا - کاش سرمایہ دار اور جاگیردار ہر تحصیل ہیڈ کوارٹر پر غریبوں اور محنت کشوں کے لیے سرکاری کیمپ ہی لگا دیتے جس میں راشن اور کپڑے کا اہتمام کیا جاتا اور اس طرح ہزاروں محنت کشوں کو خودکشی سے بچایا جا سکتا تھا - پاکستان کے مزدوروں کو چاہیے کہ وہ خودکشیوں کی بجائے اپنے حقوق کے لیے منظم جدوجہد کریں اور پاکستان کے وسائل میں سے اپنا پورا حق حاصل کریں- کب تک وہ اپنا بنیادی حق زکوةکے طور پر حاصل کرتے رہیں گے- اس دھرتی کے مالک کروڑوں محنت کش عوام ہیں - پانچ فیصد سرمایہ دار اور جاگیردار پاکستان کے وسائل پر ناجائز قابض ہیں- اب وقت آگیا ہے کہ محنت کش عوام اپنے حقوق کے لیے بھرپور اور نتیجہ خیز تحریک چلائیں اور طبقاتی جدوجہد کا آغاز کرکے علامہ اقبال کا یہ خواب پورا کر دیں کہ
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امراء کے در و دیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
٭....٭....٭