بدھ‘ 22 شوال المکرم 1445ھ ‘ یکم مئی 2024ئ

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کا اسلام آباد پر قبضے کا بیان درست ہے، بانی پی ٹی آئی۔ 
علی امین گنڈاپور پھٹے چک قسم کے بیانات دیتے رہتے ہیں ان کی طرف سے گزشتہ دنوں کہا گیا تھا کہ اسلام آباد آئیں گے، اسلام آباد پر قبضہ کر لیں گے اور عمران خان کو جیل سے نکال کر لے جائیں گے۔ یہ فلمی ڈائیلاگ جسے کچھ لوگوں کی طرف سے سنجیدہ لے لیا گیا حتیٰ کہ خان صاحب نے بھی، علی امین گنڈا پور نے ایک سانس میں اسلام آباد پر قبضے کی بات کی تو دوسری سانس میں قبضہ چھوڑنے کا بھی عندیہ دے دیا۔ کہا گیا ، عمران خان کو رہا کروا کے لے جائیں گے۔ گویا عمران خان کو رہا کروائیں گے اور ساتھ ہی اسلام آباد پر قبضہ بھی چھوڑ دیا جائے گا۔ ادھر تحریک انصاف کی طرف سے سنی اتحاد کونسل کے گھونسلے میں اپنے سارے انڈے رکھ دیے گئے تھے۔سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا کی طرف سے تحریک انصاف کو مشورہ دیا گیا ہے کہ اسمبلیوں سے استعفے دے دیئے جائیں کسی سے مذاکرات نہ کیے جائیں، کارکن سڑکوں پر آجائیں احتجاج کیا جائے مظاہرے کئے جائیں۔ حامد رضا صاحب کی طرف سے جو گر بتائے گئے ہیں ان کو پہلے ہی تحریک انصاف آزما چکی ہے۔ استعفے دیئے گئے ،مظاہرے کیے گئے اوراحتجاج کیا گیا تھا۔ 25 مئی 2022ءکواور نو مئی 2023ءکے بعد جو کچھ ورکرز اور لیڈروں کے ساتھ ہوا ابھی تک یہ لوگ ٹکوریں کر رہے ہیں۔صاحبزادہ صاحب کی طرف سے اینٹ سے اینٹ بجانے اور پلٹ کر جھپٹتے کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔
 گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے۔
حامد رضاصاحب کی طرف سے جو تجاویز دی گئی ہیں ان پر عمل کرنے کے لیے صرف آنکھوں میں دم ہونا کافی نہیں ہے۔خان صاحب کی طرف سے مذاکرات کے لیے گنڈا پور کا نام بھی شامل کیا گیا ہے۔ یہ مذاکرات کا حصہ ہوں گے تو سوال یہ نہیں کہ مذاکرات کامیاب ہوں گے یا نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ مذاکرات کی ٹیبل مذاکرات سے پہلے الٹادینگے یا مذاکرات کے دوران پلٹا دینگے؟
٭....٭....٭
موٹروے اپنا بوجھ خود اٹھائے گی ، علیم خان وزیر مواصلات۔
موٹروے پر آپ جو بھی لادتے جائیں گے اس نے بہ امر مجبوری یا راضی خوشی سب کا بوجھ تو اٹھانا ہی ہے۔موٹروے تو ہزاروں لاکھوں خاندانوں کا بوجھ بھی اٹھا رہی ہے۔میاں نواز شریف نے موٹرویز کا پاکستان میں آغاز کیا۔ پھر جو بھی حکومت آئی اس کو آگے لے کے چلتی رہی۔ علیم خان صاحب اس کو مانسہرہ سے گلگت بابو ٹاپ اور سکر دو تک لے جانا چاہتے ہیں۔مانسہرہ والوں نے بانی موٹروے کیساتھ الیکشن میں اچھا نہیں کیا۔اس کے بعد تو موٹروے اس شہر کے نیچے سے یا اوپر سے گزارنی چاہیے تاکہ یہ لوگ موٹروے کو دیکھ تو سکیں استفادہ نہ کر سکیں۔موٹروے خود انحصاری کی طرف خود کفالت یا اپنا سارا بوجھ اٹھانے کی طرف کیسے جائے گی۔کیا ایم ٹیگ کے ریٹ بڑھا دیے جائیں گے؟ ریسٹ ایریاز اور سروسز ایریاز کی سروسز میں اضافہ کر دیا جائیگا۔ آمدن بڑھانے کیلئے اپنے جیب تراش رکھے جائیں گے؟ان ایریاز میں مہنگے ٹھیکے دیے جاتے ہیں۔ٹھیکے دار مسافروں ہی سے اپنے ٹھیکے پورے کرنے کے ساتھ ساتھ منافع بھی جھاڑتا ہے۔کھانے پینے اور دیگر استعمال کی چیزیں ان ایریاز میں کہیں ڈبل اور کہیں ڈیڑھ گنا مارکیٹ ریٹ سے زیادہ پر دستیاب ہوتی تھیں۔کیا ان ریٹس میں مزید اضافہ کر کے موٹروے خود کفالت کی طرف جائے گی؟ موٹروے کو ان سب کے بغیر بھی کامیابی سے چلایا جا سکتا ہے۔آج اس کی جتنی آمدن ہے اس کو کئی گنا زیادہ بڑھایا جا سکتا ہے۔ملک میں جیلوں کے جال بچھانے کی بجائے موٹر ویز کے جال بچھائے جائیں۔ٹول پلازہ پر ریٹس تھوڑے کم کیے جائیں تو زیادہ ٹریفک کا رجحان موٹرویز کی طرف ہوسکتا ہے۔موٹرویز کے دونوں اطراف کتنی زمین ہے۔ ان پر چھوٹے قد کی فصلیں اگائی جائیں جس میں ڈاکو نہ چھپ سکیں۔علیم خان صاحب کا اپنا تعلق بلڈنگ انڈسٹری سے بھی ہے۔موٹرویز کے ساتھ کہیں بھی صنعتی زون نظر نہیں آ رہے۔موٹر ویز بننے کے بعد کتنے انٹرچینجز کے ساتھ نئی آبادیاں بسائی گئی ہیں؟ اس طرف بھی توجہ کر لیں تو موٹروے یقیناً منافع بخش پراجیکٹ ثابت ہو سکتا ہے۔
٭....٭....٭
طلبا پر وحشت طاری۔ فٹ بال گراونڈ میدان جنگ بن گئی۔
گزشتہ دنوں اسی ماہ کے دوسرے ہفتے میکسیکو میں دو ٹیموں کے مابین فٹبال میچ کے دوران تماشائی آپس میں لڑ پڑے۔ ایسے لڑے کہ 40 زخمی ہو گئے۔بیچ بچاو کرانے کے لیے کھلاڑیوں نے بھی بڑی کوشش کی لیکن تماشائی بپھرے رہے۔ایسا ایک جدل سرگودھا میں بھی برپا ہوا۔ یہاں کھلاڑیوں نے فٹبال گراونڈ کو میدان جنگ بنا دیا۔دونوں ٹیمیں طلبا کی تھیںجنہیں نونہال اور قوم کے معمار کہا جاتا ہے۔ 
سرگودھا یونیورسٹی میں ہائر ایجوکیشن کمشن کے زیر اہتمام منعقدہ چیمپئن شپ میں پاکستان بھر کی 16 جامعات کی ٹیموں نے شرکت کی۔ایسے مواقع پر سپورٹ کرنے والے طالب علموں کے ساتھ ساتھ اساتذہ بھی موجود ہوتے ہیں۔ میچ کے دوران سرگودھا اور مردان کی ٹیموں کے کھلاڑیوں کے درمیان "نسوار" پر تلخ کلامی ہوگئی اور بات بڑھ گئی۔ جس کے باعث فٹبال گراونڈ میدان کار زار میں تبدیل ہوگیا۔ دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں نے ایک دوسرے پر ڈندوں، لاتوں اور گھونسوں کی بارش کر دی۔جھنڈے اتار کر ڈنڈے بنائے گئے تھے۔فٹ بال کو پڑنے والی ککیں ایک دوسرے کو مارے جانے کے مناظر شائقین نے لائیو ملاحظہ کئے۔کھلاڑی اس قدر آپے سے باہر ہوئے جیسے کسی نے بل کو لال رومال دکھا دیا ہو۔یونیورسٹی سکیورٹی سے حالات کنٹرول نہ ہوئے تو پولیس کو طلب کر لیا۔جس پر پولیس نے حالات کو کنٹرول کیا۔ پہلوانوں نے آکر گرے پڑے کھلاڑیوں کے گوڈے گٹے سیدھے کئے۔ واہ میرے دیس کے طالب علمو اور اساتذہ کرام واہ۔ اساتذہ کا کام ایک دونی دونی ہی سکھانا نہیں ہوتا ،تربیت بھی کرنا ہوتی ہے۔کیسی تربیت کی کہ فٹبالروں کو میدان میں بھیجا۔ وہ باہر آئے تو ریسلر بن چکے تھے۔
٭....٭....٭
گول گپے بیچنے والے مودی کے ہمشکل شہری کی ویڈیو وائرل۔ 
  انیل بھائی ٹھاکر کا تعلق گجرات سے ہے جن کا پیشہ گول گپہ فروشی ہے۔ مودی چائے فروش تھے، انہوں نے کبھی گول گپے بیچے نہ گول گپے بنائے ہوں گے لیکن گپیں مارتے مارتے وزیراعظم بن گئے۔اتفاق سے دونوں ہم شکلوں کا تعلق گجرات سے ہے۔مودی کی فطرت کو پوری دنیا جاننے لگ گئی ہے۔ انیل بھائی ٹھاکر کو جاننے والے بتا سکتے ہیں کہ ان کی شکل تو مودی سے ملتی ہے کیا کرتوت بھی ایک جیسے ہیں۔کئی بڑے لوگ اپنے ہم شکل ہونے والوں س بڑے فائدے بھی اٹھا لیتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ گورنر کالا باغ امیر محمد خان کے ڈرائیور کا نام نور محمد تھا جسے نورا کہتے تھے۔ اتفاق سے ذوالفقار علی بھٹو کے ذاتی ملازم کا نام بھی نور محمد المعروف نورا ہی تھا۔ نواب صاحب کا نورا انکا پرسنل گارڈ اور ملازم بھی تھا۔اس کی شکل بھی گورنر صاحب سے ملتی تھی مونچھیں بھی اس نے اسی طرح کی رکھی ہوئی تھیں۔ گورنر کبھی نورے کو اپنی سیٹ بٹھا کر گاڑی خود بھی ڈرائیو کرنے لگ جاتے تھے۔ عموما دیکھنے والوں کو پتہ نہیں چلتا تھا۔ عموماً جڑواں جوڑوں یعنی بہنوں اور بھائیوں کی شکلیں اتنی زیادہ آپس میں مماثل ہوتی ہیں کہ بعض اوقات والدین کو بھی پہچاننے میں مشکل ہو جاتی ہے۔تا ہم یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ جڑواں بھائیوں کی شکلیں آپس میں ملتی ہوں۔مگر عام طور پر جڑواں بہنوں اور بھائیوں کی شکلیں ایک جیسی ہوتی ہیں۔پانچویں کلاس میں پڑھنے والے جڑواں بھائیوں میں ناقابل یقین حد تک مماثلت تھی۔فرق تھا تو صرف یہ تھا کہ ایک کے چہرے پرچھوٹے سے تل کا نشان تھا۔ایک دن بغیر تل کے نشان والا لڑکا بغیر بتائے سکول نہیں آیا۔اگلے روز ٹیچر نے پوچھا تو دونوں خاموش رہے۔ٹیچر نے غور سے دیکھا تو دونوں کے چہرے پر تل تھے۔ماسٹر صاحب چیٹنگ کو سمجھ گئے انہوں نے دونوں کو منہ دھونے کے لیے بھیج دیا۔جس نے سر مے سے تل بنایا تھا اسے ماسٹر صاحب نے کان پکڑوا دیئے۔کسی نے درست کہا ہے شکلیں ایک جیسی ہو سکتی ہیں، مقدر نہیں۔مودی جیسا بھی ہے وزیراعظم ہے اور انیل بھائی ٹھاکر گول گپے فروش۔

ای پیپر دی نیشن