عیشہ پیرزادہ
Eishapirzada1@hotmail.com
چائلڈ لیبر انسانی حقوق کا مسئلہ ہے۔ یہ بچوں پر ایسا ظلم ہے جس کے سبب بچے کم عمری میں ہی مختلف شعبوں میں کام کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی ترقی اور تعلیم میں رکاوٹ آجاتی ہے۔ہمارے ملک میں بچے مختلف شعبوں میں مزدوری کرتے ہیں۔ شہری علاقوں میں بچے مختلف مارکیٹوں، دکانوں،موٹر مکینک ورکشاپس اور کارخانوں میں کام کرتے ہیں۔یہ عموماً دکانداروں کا ہاتھ بٹاتے، سامان لاتے ہیں یا کارخانوں میں کچھ تکنیکی امور ادا کرتے ہیں۔چھوٹے کے نام سے پکارے جانے والے یہ بچے گھریلو ملازمین، چائے کے ڈھابوں، موبائل فون کی دکانوں، ٹرک اڈوں میں مزدوری کرتے ہیں۔ دیہاتی علاقوں میں بچے مختلف مزدوری کرنے پر مجبور ہیں، ان سے زرعی کام، گھریلو مدد، یا دیگر ذاتی مزدوریاں بغیر کسی قانونی خوف کے کروائی جارہی ہیں۔ ان بچوںپر دل دہلا دینے والے تشدد کے واقعات بھی روز سامنے آتے ہیں مگر ہمارا قانون خاموش ہے۔
پاکستان میں چائلڈ لیبر کے ختم نہ ہونے کی مختلف وجوہات ہیں، جن میں سے ایک محکمہ لیبر پنجاب کے افسران کی ملی بھگت کی گردش کرتی داستانیں ہیں جو کام کروانے والے ان مالکان کیخلاف کارروائی کے بجائے سرپرسی کرتے ہیں۔ اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں 10 سال کی عمر تک کے 14 ملین سے زیادہ بچے مختلف شعبوں میں کام کر رہے ہیں، جن میں سے 56 فیصد زرعی شعبے میں کام کر رہے ہیں۔ہمارے لیے یہ المیہ ہے کہ پاکستان میں چائلڈ لیبر کی سب سے زیادہ تعداد پائی جاتی ہے۔
اس حوالے سے نوائے وقت کے قارئین تک حقائق پہنچانے کیلئے ہم نے پنجاب کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا۔ دیکھا کہ پاکستان کا دل لاہور ہو یا گوجرانوالہ، فیصل آباد،شیخوپورہ، راولپنڈی، پھول نگر، پتوکی، اوکاڑہ، دیپالپور، حویلی لکھا، عارف والا،باریکا، ہیڈسلیمانکی، میکلوڈ گنج، منچن آباد،پاکپتن، ساہیوال، بہاولنگر، چشتیاں، حاصل پور،بہاولپور،احمد پور شرقیہ، لیاقت پور، رحیم یارخان اور ڈی جی خان سمیت دیگر شہر' کون سی ایسی مین شاہراہ،گلی محلہ ہے جہاں بچے کام کرتے دکھائی نہیں دیتے؟. ہم نے پنجاب کے مختلف شہروں میں شدید دھوپ میں ننھے ہاتھوں کو موٹرسائیکل، گاڑی کی مرمت کرتے دیکھا تو کہیں تندور پر مزدوری کرتے۔ کسی جگہ کوئی بچہ کھرپہ لیکر گھاس،پھول اگانے کیلئے لان اور کیاری کی گوڈی کررہا تھا تو کوئی بھٹوں پر مزدوری میں مگن تھا۔ جگہ جگہ یہ احساس ہورہا تھا کہ عوام کے ٹیکس سے شان و شوکت کی زندگیاں بسر کرنے والے محکمہ لیبر کے افسران اپنا کام ڈھنگ سے نہیں کر رہے، قانون کا حقیقی نفاذ نہ ہونے سے بچوں کو ان کے حقوق نہیں مل رہے۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ چائلڈ لیبر کی بنیادی وجہ ملک میں غربت ہے۔ دن بدن بڑھتی مہنگائی ہے۔ جس کی وجہ مختلف ادوار میں آنے والی حکومتوں کی ناقص پالیسیاں ہیں۔ غربت اور معاشی پریشانی کی وجہ سے بچے مجبور ہوتے ہیں کہ وہ کم عمری میں کام کریں تاکہ خاندان کی مدد کرسکیں۔ جبکہ تعلیم کی عدم فراہمی، معیاری تعلیمی اداروں کی کمی بھی چائلڈ لیبر میں اضافے کی اہم وجوہات ہیں۔ خاندانی مسائل، جیسے کہ والدین کی موت، طلاق، یا خاندانی اختلافات بھی بچوں کو مزدوری کی طرف مائل کرنے کا بڑا محرک ہیں۔
یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ ملک کے دیگر صوبوں کے متعلقہ اداروں سمیت محکمہ لیبر پنجاب کی کوششیں چائلڈ لیبر کے خاتمے میں ناکام کیوں ثابت ہوئی ہیں؟اس سوال کا جواب ہمیں لاہور، دیپالپور،اوکاڑہ اور پاکپتن میں بچوں، ان کے والدین اور لیبر افسران سے گفتگو میں ملا۔ والدین نے بچوں کو کمانے کیلئے گھرسے باہر بھیجنیکی وجہ مہنگائی کے سبب معاشی ترقی نہ ہونا قرار دیا۔ اور محکمہ لیبر کے افسران کا کہنا ہے کہ محکمہ ضروری وسائل بروئے کار لا کر چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیے پر عزم ہے۔
نظام میں استحکام نہ ہونا،اور مختلف تنظیموں کی جانب سے رکاوٹیں بھی چائلڈ لیبر کے خاتمے میں ناکامی کی بڑی وجہ ہے۔
صرف پنجاب ہی میں نہیں بلکہ صوبہ سندھ میں 64 لاکھ بچے مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ جبکہ بلوچستان میں بہت سے کم عمر بچوں کو بطور مزدور کام کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ اگرچہ ا?ئینِ پاکستان کا ا?رٹیکل 11 وضع کرتا ہے کہ ’14 سال سے کم عمر کسی بھی بچے کو فیکٹری، کان یا کسی بھی خطرناک مقام پر ملازمت پر نہیں رکھا جائے گا‘۔ لیکن بدستور کم عمر بچوں کو اپنے خاندان کی کفالت کرنے کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈالنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔
بعض افراد بچوں کی مزدوری کو معمولی واقعہ سمجھتے ہیں۔ دراصل یہ وہ لوگ ہیں جو قابل رحم ہوتے ہیں۔ انہیں بچوں کے حقوق کی اہمیت سمجھائی نہیں جاتی۔ محکمہ لیبر کے نااہل افسران اور معاشرے میں شعور کی کمی کی وجہ سے پاکستان میں چائلڈ لیبر کے ختم ہونے کے امکانات دور دور تک دکھائی نہیں دے رہے۔ حالانکہ چائلڈ لیبر کے خاتمے میں بہت سی سرکاری اور غیر سرکاری تنظیمیں مختلف اقدامات اٹھا رہی ہیں۔ تاکہ بچوں کی حفاظت کی جائے اور ان کو تعلیم اور ترقی کرنے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ سرکاری ذمہ داران کا کڑا احتساب، تعلیمی نظام کی بہتری، مہنگائی میں کمی، معاشی سہولتوں کی فراہمی، قانون کا نفاذ اور سماجی اصلاحات کے ذریعے چائلڈ لیبر پر بڑی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔
وفاقی وزارت تعلیم کے ذیلی ادارے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن کی یونیسکو کے تعاون سے بنائی گئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پنجاب میں ایک کروڑ 11 لاکھ، سندھ میں 76 لاکھ، خیبرپختونخوا میں 36 لاکھ، بلوچستان میں 31 لاکھ اور اسلام آباد میں 80 ہزار بچے سکول جانے سے محروم ہیں۔سکول جانے کی عمر کے انتالیس فیصد بچے سکولوں سے باہر ہیں، بلوچستان میں سب سے زیادہ 65 فیصد بچے اسکول سے باہر ہیں۔ہائر سیکنڈری سطح پر 62 فیصد بچے، میٹرک سطح پر 40 فیصد، مڈل سطح پر 30 فیصد اور پرائمری سطح پر 36 فیصد بجے سکول سے باہر ہیں۔تعلیمی میدان سے خارج یہی بچے ح بد قسمتی سے چائلڈ لیبر فورس کا حصہ ہیں۔ یہ تعداد اتنی بڑی ہے کہ ان بچوں کو کم عمری میں مزدوری سے بچانے کے لیے حکومت وقت کو جامع حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے،جس کیلئے بد دیانتی کو اکھاڑ پھینکنا ہو گا۔
محکمہ لیبر پرتعین تنخواہوں کے باوجود چائلڈ لیبر کے خاتمہ میں ناکام کیوں؟
May 01, 2024