ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات ۔

May 01, 2024

نگہت لغاری

میرے آج کے کالم کا عنوان علامہ اقبال کا ایک ایسا شریں شعر ہے جس کا ضائقہ بہت ہی تلخ ہے۔
یکم مئی مزدوروں کا عالمی دن ہے۔ آج اس عالمی دن کی ظاہری اور روایاتی تفصیلات میں جانے کی بجائے مزدوروں کی زندگیوں کی تلخیاں بتاؤں گی۔ ان تلخیوں کی تفصیلات اتنی زیادہ ہیں کہ اگر ایمانداری سے لکھی جائیں تو کرہِ ارض کا صفحہ بھی کم پڑ جائے۔ 
مختصر تفصیل اس عالمی دن کی یہ ہے کہ جب تقریباً ہر ملک کے مزدوروں کا استحصال اور محرومیاں اپنی آخری حد تک پہنچیں تو 1886ء  میں امریکی مزدور شکاگو میں کارخانوں سے باہر نکل کر احتجاج کے طور پر سڑک پر نکل آئے مطالبہ صرف یہی تھا کہ ان کے اوقات کار (آٹھ گھنٹے) مقرر کئے جائیں اور اْجرت بڑھائی جائے۔ کارخانہ داروں کو مزدوروں کی اس گستاخانہ جرأت نے آگ بگولہ کر دیا۔ انہوں نے اپنی دھونس اور دَھن کو استعمال کرتے ہوئے ایک امریکی اخبار کے مطابق مزدوروں پر ایک بم پھینک دیا۔ اخبار لکھتا ہے 
To disperse the worker the police datomaited a Bome.
بہرحال اگر مجھ سے کوئی پوچھے تو میرا نصابی جواب یہ ہو گا مزدور، جانکاہ محنت، جیل اور گولی۔ 
آئیے آج کی ایک تازہ خبر سنیئے۔ 
خبر آئی ہے کہ ملکی حالات کی غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے مزدور بیکار ہو گئے ہیں۔ کچھ مزدوروں نے ایک مہم جو قسم کی ترکیب سوچی۔ تین مزدور دوستوں نے رات کو کریانہ کی دو قطار وار دکانوں کو توڑا اور ان دکانوں سے صرف وہ اشیاء اٹھائیں جو رمضان کی وجہ سے سحری اور افطاری میں استعمال ہوتی ہیں۔ مثلاً کھجوریں، روح افزاء کی بوتلیں، بیسن چاول دالیں اور آٹا۔ سڑک کے کنارے کھلے عام دوچار میزیں لگا کر اْن پر یہ اشیاء سجائیں اور ان کے آگے ایک بورڈ لگا دیا جس پر لکھا تھا:
’’سحری اور افطاری کا سامان ہم سے سستے داموں خریدیں‘‘ مہنگائی کے مارے لوگ اْس عارضی دکان پر ٹوٹ پڑے۔ اْن میں وہ دکاندار بھی شامل تھے جن کی دکانیں لوٹی گئی تھیں۔ شاید انہوں نے ا پنا سامان پہچان لیا تھا۔ انہوں نے فوراً پولیس میں شکایت درج کروائی۔ پولیس آئی تو ان چوروں نے فوراً اعترافِ جرم کر لیا مگر باآوازِ بلند کیمروں کی روشنی میں قانون کے رکھوالوں کو صاف صاف کہہ دیا۔ڈھول سپاہیو اگر آپ کے بچے بھی ہمارے بچوں کی طرح بھوک سے تڑپتے تو آپ بھی یہی کام کرتے بلکہ یہی کام آپ بھی کرتے ہیں مگر آپ ایک دوسرے کو کیسے پکڑ سکتے ہیں۔
 میرے خیال میں مزدوروں کے ا س اعتراف جرم پر سارے حکمرانوں کو اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر تخت سے اْتر آنا چاہیے اور اپنے چہروں کو اپنے ایک ہاتھ سے چھپا کر اپنے اپنے شاہی قلعوں میں چھپ جانا چاہیے۔ پہلے کرونا کے عذاب کی وجہ سے اور اب ملکی حالات کی بے یقینی کی وجہ سب سے زیادہ تکلیف میں گرفتار یہی مزدور طبقہ ہے۔ مِل مالکان نہیں۔ ملوں کے مزدور بیکار ہوئے ہیں۔ کارخانہ اگر کسی وجہ سے بند بھی ہو جائے تو کارخانے کے مالک کی زندگی تو رواں دواں رہتی ہے۔ صرف مزدور کی زندگی رْک جاتی ہے۔ کارخانہ داروں کے بارے میں کبھی کوئی قانون سازی نہیں ہوئی ساری قانون شکنی مزدوروں کے معاملات میں ہوتی ہے۔ اناج کو مختلف صورتوں میں ڈھالنے والے کارخانے میں کام کرنے والا مزدور سانس کا رشتہ بحال رکھنے کے لیے عام اناج سے بھی محروم رہتا ہے۔ کپڑوں کے کارخانے میں کام کرنے والا مزدور لاکھوں گز کپڑا روزانہ تیار کرتا ہے مگر خود صرف تن ڈھانپنے کا لباس رکھتا ہے۔ سائیکلوں کے کارخانوں میں کام کرنے والا مزدور موسموں کی شدت میں بھی گھر سے کارخانے اور کارخانے سے گھر تک پیدل سفر کرتا ہے اور اسی کارخانے کا مالک کروڑوں کی لگڑری گاڑیوں میں مختصر ترین سفر طے کرتا ہے۔ 
میرے گھر کے نزدیک ایک بھینسوں کا بھانہ ہے جہاں 25,20 بھینسیں کھڑی ہیں شام کو اس بھانے کا زمیندار مالک اپنی لگڑری گاڑی کے پیچھے ایک ویگن لے کر آتا ہے اور بھینسوں کا یہ دودھ مارکیٹ میں چلا جاتا ہے۔ ایک دن میں وہاں سے گزر رہی تھی تو ایک انتہائی ناتواں غریب عورت اس بھانے کے باہر کھڑی تھی بھانے کے اندر سے ایک ملازم نکلا اور پھر وہ دونوں آپس میں جھگڑنے لگے۔ وہ عورت کہہ رہی تھی تمہارا یہ بچہ بھوک سے بلک بلک کر مرنے پر آ گیا ہے۔ صبح سے تمہارے بیٹے کو اس بچے کا دودھ لینے بھیجا ہے وہ ابھی تک نہیں لوٹا۔ تم تو اِدھر چھپ کر آرام سے بیٹھ جاتے ہو بچے میری جان کھاتے ہیں، پکڑو اپنا بچہ۔ اور وہ عورت پھینکنے کے انداز میں بچے کو دھکیل کر آگے بڑھ گئی۔ وہ ملازم بچے کو اٹھا کر کہتا جا رہا تھا تمہارے خیال میں یہاں میں چْھپ کر بیٹھا ہوں؟ دن رات کی ڈیوٹی دیتا ہوں۔ 25 بھینسوں کے لیے ہم صرف 4 ملازم ہیں۔ دیکھا نہیں میں ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گیا ہوں۔ اور وہ عورت جواب میں اپنے شوہر کو کہہ رہی تھی سارا دن دودھ کی بالٹیاں بھرتے ہو، خود بھی تو پی لیا کرو اور شوہر اسے سمجھا رہا تھا کہ دودھ دوہنے کے وقت پر ملک صاحب خود موجود ہوتے ہیں۔ کیسا ہی موسم ہو بارش ہو گرمی ہو وہ عین وقت پر پہنچ جاتے ہیں۔ میں دودھ کیسے پی سکتا ہوں البتہ ملک صاحب اپنے پالتو کتوں اور بلیوں کو جو دودھ ڈال جاتے ہیں وہ کبھی کبھی ان کے برتنوں میں بچا رہتا ہے مگر وہ ہم کیسے پئیں۔گھروں میں کام کرنے والی خواتین اور ان کے بچے امیروں کے گھروں میں سارا دن مرغن کھانے پکانے میں جْتے رہتے ہیں۔
 امیروں کا بس چلے تو وہ ان کھانا پکانے والے ملازموں کی آنکھوں پر چمڑے کی وہ عینکیں چڑھا دیں جو کولہو کے بیل کی آنکھوں پر چڑھا دی جاتی ہیں تاکہ ملازموں کو کام کا احساس بھی نہ ہو اور وہ ان کے مرغن کھانوں کو اپنی بدنظر بھی نہ لگائیں۔ سارا دن کھانے پکانے والے ان ملازموں کو شام کو اپنا بچا کچا کھانا دے کر رخصت کر دیا جاتا ہے تنخواہ بھی کبھی کبھار ہی وقت پر یا پوری دی جاتی ہے۔
٭…٭…٭

مزیدخبریں