محلّاتی سازشوں کی "ملامت"۔

پیر کی شام ایک طویل وقفے کے بعد جمعیت العلمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپنے ذہن پر چھائے خیالات سے عوام کو آگاہ کیا۔ اندھی نفرت وعقیدت سے مغلوب اذہان گھمبیر ترین مسائل کے یک سطری حل ڈھونڈنے کے خواہاں ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ مولانا کے خطاب سے محض ایک نکتہ اخذ کریں گے اور وہ یہ کہ شہباز حکومت کو عوامی تائید حاصل نہیں۔ مولانا فضل الرحمن کی نگاہ میں موجودہ وزیر اعظم ایک ایسے ایوان یعنی قومی اسمبلی کے قائد ہیں جس کے اراکین صاف شفاف انتخاب کے ذریعے منتخب نہیں ہوئے۔ وہاں بیٹھے افراد نے بقول مولانا ’’نشستیں خریدی ہیں‘‘۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ مبینہ طورپر ’’خریدی‘‘نشستوں کی اکثریت تحریک انصاف کے حمایت کنندگان کے پاس ہے۔ مولانا کی اس کے باوجود یہ خواہش تھی کہ شہباز شریف وزارت عظمیٰ کا عہدہ چھوڑ کر تحریک انصاف کو حکومت بنانے کا موقع دیں۔
جس ’’موقع‘‘ کا مولانا صاحب شہباز صاحب سے تقاضہ کررہے تھے وہ پیپلز پارٹی نے نہایت ہوشیاری سے 8فروری کے انتخابات کے فوری بعد مہیا کردیا تھا۔ بیک ڈور رابطوں کی مجھے خبر نہیں۔ بلاول بھٹو زرداری لیکن متعدد بیانات کے ذریعے یہ تاثر اجاگر کرتے رہے کہ اگر واحد اکثریتی جماعت کی حیثیت میں ابھرے تحریک انصاف کے حمایت یافتہ افراد نے حکومت سازی کی کوشش کی تو وہ اس کا خیر مقدم کریں گے۔فرض کیا ایسے ہوجاتا تو شاید پیپلز پارٹی اسی انداز میں تحریک انصاف کی حمایت بھی کرسکتی تھی جس انداز میں یہ جماعت ان دنوں مسلم لیگ (نون) کا ساتھ دے رہی ہے۔ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ افراد مصر رہے کہ پہلے ان کی ’’چرائی‘‘ نشستیں لوٹائی جائیں تاکہ وہ تن تنہا حکومت بنائیں۔ ’’چرائی‘‘ نشستوں کو فوری طورپر تحریک انصاف کے حوالے کرنے کا لیکن کوئی طریقہ آئین اور قانون کی کتابوں سے دریافت نہ ہوسکا۔ مسلم لیگ (نون) یوں تحریک انصاف کے کنفیوڑن اور غیر لچکدار رویے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پیپلز پارٹی کی حمایت سے وفاقی حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی۔ اسے ہٹانے کا واحد طریقہ اب شہباز شریف کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرکے اسے کامیاب بنانا ہے۔ مولانا فضل الرحمن مگر اس جانب بڑھتے سنائی نہ دئے۔ شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کو مشورہ دیتے رہے کہ وہ ازخود حکومت اور اس کی حمایت سے دست بردار ہوکر تحریک انصاف کو حکومت سنبھالنے کو مائل کریں۔
مولانا فضل الرحمن جیسے زیرک اور انتہائی تجربہ کار سیاستدان سے مجھے ایسی ’’سادگی‘‘ کی ہرگز توقع نہیں تھی۔ ان کا یہ دعویٰ اگرچہ جھٹلانا ناممکن ہے کہ ہمارے ہاں گزشتہ کئی دہائیوں سے جمہوری نظام کے نام پر درحقیقت محلاتی سازشوں کے ذریعے حکومتی ڈھانچے بنائے اور ا کھاڑے جاتے ہیں۔ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے بات آگے بڑھائیں تو 2022ء کا آغاز ہوتے ہی عمران حکومت کے خلاف بھی مولانا فضل الرحمن کی بیان کردہ محلاتی سازشوں کی بدولت تحریک عدم اعتماد کی گیم لگی تھی۔مولانا اس گیم کو کامیاب بنانے میں پیش پیش تھے۔ وہ کامیاب ہوگئی تو نئے حکومتی بندوبست میں مولانا کی جماعت نے اپنے جثے سے زیادہ حصہ بھی وصول کیا۔ حالیہ تاریخ کی ایک گہری محلاتی سازش کا کلیدی کردار ہوتے ہوئے مولانا فضل الرحمن کی زبان سے ایسی سازشوں کی مذمت میرے جھکی ذہن کو لہٰذا دوغلاپن سنائی دی۔ 
سازشیں محلاتی ہوں یا غیر محلاتی، جمہوری نظام کے نام پر لگائے تماشوں کا اہم ترین حصہ ہیں۔ ان کے بغیر ’’محفل جمہوریت‘‘ سجتی ہی نہیں ہے۔ حقیقت مگر یہ بھی ہے کہ عوام کی حمایت سے مالا مال حکومتوں یا سیاسی جماعتوں کو محلاتی یادیگر سازشیں کمزور کرنے میں ہمیشہ ناکام رہتی ہیں۔ سوال اٹھتا ہے کہ تحریک انصاف سمیت وطن عزیز کی کونسی جماعت نے کب یہ فیصلہ کیا کہ وہ ’’ان‘‘ کی سرپرستی اور حمایت کے بغیر فقط عوام کی حمایت سے حکومت میں آنا چاہے گی۔ 1985ء کے برس سے ملکی سیاست کا متحرک شاہد ہوتے ہوئے میں نے کسی ایک سیاسی جماعت کو اس رویے پر کاربند ہوتے نہیں دیکھا۔ اپریل 2022ء میں جس حکومت کو ’’محلاتی سازش‘‘ کے ذریعے ہٹایا گیا تھا بذاتِ خود 2014ء  کے برس سے ہلکی آنچ پر رکھی ’’سازش‘‘ کی بدولت ہی 2018ء کے ’’انتخاب‘‘ کے ذریعے برسراقتدار آئی تھی اور اپنے زوال تک ’’ان‘‘ کے ساتھ ’’سیم پیج‘‘ پر ہونے کی بابت بہت نازاں رہی۔ ہماری سیاسی جماعتوں کا حتمی ہدف ’’سیم پیج‘‘ پر شراکت داری ہے۔ جسے نصیب ہوجائے وہ کچھ عرصے تک اترائے پھرتا ہے۔ اس سے محرومی ’’حقیقی آزادی‘‘ کی تڑپ بیدار کردیتی ہے۔ عملی صحافت کی بدولت اس عمل کو قریب سے دیکھا تو تاریخ کی کتابوں سے خبر یہ بھی ملی کہ آدھا تیتر آدھا بٹیر دکھتے جس نظام کو ہم بھگت رہے ہیں اس کا آغاز تو 1950ء کی دہائی میں ہوگیا تھا۔ 1971ء میں آدھا ملک گنوانے کے باوجود ہم اس نظام کا متبادل ڈھونڈنے میں ناکام رہے ہیں اور 2024ء کے برس یہ نظام قطعاََ کھوکھلا اور ناقابل استعمال نظر آنا شروع ہوگیا ہے۔
دیگر سیاستدانوں کے برعکس مولانا ایک مختلف النوع مخمصے کا شکار بھی ہیں۔ وہ ایک ’’دینی‘‘ جماعت کے سربراہ ہیں جو آئین کے مطابق انتخابی عمل کی بدولت اقتدار میں بھی آنا چاہتی ہے۔گزشتہ کئی دہائیوں سے تاہم دین ہی کو بنیاد بناتے ہوئے کئی علماء نے پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کی نوجوان نسل کو اس امر پر قائل کردیا کہ ’’جمہوریت‘‘ ایک فراڈ ہے۔اسے سامراجی قوتوں نے ہمارے جن خطوں پر اپنا قبضہ مستحکم کرنے کے لئے متعارف کروایا تھا۔ مسلمانوں کو جبکہ اپنے ’’اصل‘‘ کی طرف لوٹنا ہوگا۔ ’’اصل‘‘ کی تشریع پر البتہ اتفاق نہیں ہورہا۔ اس اہم مسئلے پر عدم اتفاق کے باوجود محض تین سال قبل ’’جمہوری بدعتوں‘‘ سے پاک ہوئے طالبان نے امریکہ جیسی سپرطاقت کو افغانستان سے ذلیل ورسوا ہوکر بھاگنے کو مجبور کیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن جس مکتبہ فکر کے نمائندے ہیں اس کے مدرسوں سے فیض یاب ہوئے طالبان نے یہ کارنامہ حالیہ تاریخ میں برپا کیا۔ افغانستان کے اس طرف جنوبی وزیرستان،ٹانک یا ڈیرہ اسماعیل خان جیسے علاقوں میں اب پاکستانی نوجوانوں کی کماحقہ تعداد بھی طالبان ہی کی طرح ’’اصل اسلام‘‘ کی خواہاں ہے۔ مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایسی سوچ رکھنے والے نوجوانوں کے ساتھ اپنے تعلق کو دن بدن کمزور سے کمزورتر ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ اس مکتبہ فکر کے مدارس سے ’’اصل اسلام‘‘ دریافت کرنے والے اب مولانا کی اقتدار کی خاطر اپنائی ’’جمہوری سیاست‘‘ سراہنے کو تیار نہیں۔ اپنی ’’بنیادوں‘‘سے جدا ہوتے مولانا فضل الرحمن اور جمعیت العلمائے اسلام کو اب ایک نئے بیانیہ کی ضرورت ہے۔ اپنی کمزوری کے ایمان دارانہ اعتراف کے بعد ہی نیا بیانیہ تشکیل دیا جاسکتا ہے۔ مولانا اس کیلئے تیار نہیں۔ محلاتی سازشوں کی ملامت ہی سے ڈنگ ٹپانے کی کوشش کررہے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن