اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل ڈویژن بنچ نے سائفر کیس میں سزا کے خلاف بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمودقریشی کی اپیلوں پر سماعت 2 مئی تک ملتوی کر دی۔ گزشتہ روز سماعت کے موقع پر ایف آئی اے سپیشل پراسیکیوٹر حامد علی شاہ، ذوالفقار عباس نقوی، بانی پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر، شاہ محمود قریشی کی اہلیہ مہرین بانو، بیٹی مہر بانو، بیٹا زین قریشی، پی ٹی آئی رہنما اعظم سواتی، سیمی ایزدی، سینیٹر زرقا، شاندانہ گلزار اور دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔ سپیشل پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے دلائل شروع کرتے ہوئے بانی پی ٹی آئی پر چارج فریم عدالت کے سامنے پڑھا اور کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے سائفر کی کاپی وزرات خارجہ کو واپس نہیں کی، بانی پی ٹی آئی نے سائفر کی کاپی اپنے پاس رکھ لی جو ان کو واپس کرنی تھی، محمد نعمان نے سائفر ٹیلی گرام 8 مارچ کی صبح وصول کیا تھا، انہوں نے ڈائون لوڈ کیا اور اس پر سائفر کا نمبر لگا دیا اور سائفر آفیسر کے حوالے کر دیا، محمد نعمان کا بیان ججمنٹ میں موجود ہے اور ان کے بیان پر جرح بھی مکمل ہے، ڈپٹی ڈائریکٹر سائفر سکیورٹی عمران ساجد نے بیان میں سائفر کا ریسورسل طریقہ کار بتایا ہے، عمران ساجد نے بیان میں بتایا کہ سائفر کلاسیفائیڈ ڈاکومنٹ ہے، عمران ساجد نے سائفر کو رجسٹر میں اندراج کیا اور عدالت میں ثبوت بھی پیش کیا، ڈپٹی ڈائریکٹر سائفر سیکشن شمعون قیصر کو سائفر کی کاپی کو تقسیم کرنے کی اجازت ملی، انہوں نے ایس ایس پی آفس کے ذریعے وزیر اعظم ہائوس کو کاپی بھیجی ہے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ آپ تحریری طور پر یہ سب دے دیجئے گا، ابھی اہم نکات پر عدالت کو آگاہ کریں۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ آپ سائفر موومنٹ سے متعلق جو کچھ بتا رہے ہیں وہ ہمیں لکھنی پڑ رہی ہیں، آپ لیپ ٹاپ سے پڑھ رہے ہیں لیکن ہمیں لکھنی پڑ رہی ہیں، آپ یہ چیزیں تحریری طور پر ہمیں دے دیں، ہم سے لکھنے میں کچھ رہ نہ جائے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یہ تمام چیزیں میں پہلے عدالت میں بیان کر بھی چکا ہوں۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے پراسیکیوٹر سے کہا کہ آپ جو بتا رہے ہیں وہ پہلے بتا لیں تا کہ ربط نہ ٹوٹ جائے۔ پراسیکیوٹر نے کہا کہ اعظم خان نے اعتراف کیا کہ ان کے سٹاف نے انہیں وزیراعظم کی کاپی دی، اعظم خان کے مطابق وزیراعظم نے سائفر کاپی اپنے پاس رکھ لی اور واپس نہیں کی، وزیراعظم نے سائفر کی کاپی اپنے پاس رکھ لی اور بعد میں کہا کہ گم ہوگئی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اعظم خان تک تو گیا ہوگا اس کے بعد وزیراعظم تک کاپی گئی، یہ بتائیں کہ وزیر اعظم کو کاپی دینے کا بھی کوئی ثبوت موجود ہے؟۔ پراسکیوٹر نے کہا کہ اس بارے بھی عدالت کو آگاہ کروں گا۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ساجد محمود کہہ رہا کہ اعظم خان کو دیا اور اعظم خان کہہ رہا کہ مجھے سٹاف نے دیا ہے۔ پراسکیوٹر نے کہا کہ ساجد محمود نے ڈپٹی سیکرٹری اور جوائنٹ سیکرٹری کی موجودگی میں سائفر کی کاپی سٹاف کو دی، اعظم خان نے بیان دیا کہ بانی پی ٹی آئی نے جب سائفر کاپی پڑھی تو پرجوش ہو گئے۔ اعظم خان کے مطابق وزیراعظم نے سائفر کاپی پڑھنے کے لئے اپنے پاس رکھ لی، کچھ دن بعد واپس مانگنے پر وزیراعظم نے کہا کہ سائفر کاپی گم ہو گئی، وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے سٹاف اور ملٹری سیکرٹری کو ڈھونڈنے کا کہا ہے۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ بانی پی ٹی آئی نے کبھی سائفر کاپی موصول کرنے سے انکار نہیں کیا، اعظم خان تک سائفر کاپی پہنچنے کی ڈاک کی تفصیلات تو لازمی موجود ہوں گی، کیا سائفر کاپی اعظم خان سے وزیراعظم کو جانے کی بھی کوئی شہادت موجود ہے؟۔ پراسکیوٹر نے کہا کہ سارا کچھ موجود ہے، اِن اور آئوٹ کے رجسٹر موجود ہیں۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ سائفر دستاویز وزیر اعظم آفس تک جانے پر تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اعظم خان سے وزیراعظم کو کس طرح پہنچا اس سے متعلق بتا دیں، یہ بتائیں کہ دستاویز وزیراعظم تک پہنچنے کی کوئی شہادت ہے؟۔ پراسیکیوٹر نے کہا کہ نہیں، اس کی نہیں ہوتی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اعظم خان نے سائفر دستاویز وزیراعظم کو دیا ہو گا، اگر دستاویز دیا گیا ہے تو ہی ڈی مارش کا فیصلہ کیا گیا، وزیراعظم کے سیکرٹری نے تو ڈی مارش کا فیصلہ نہیں کیا ہو گا، ہمیں کیسے معلوم ہو کہ وزیراعظم نے سائفر واپس نہیں کیا ہو گا؟۔ اعظم خان ملٹری سیکرٹری کا کہہ رہا کہ اسے بتا دیا تھا گم ہوگیا، ملٹری سیکرٹری عدالت نہیں آیا کہ وہ بتاتا کہ اسے کیا کہا گیا، پراسیکیوٹر نے کہا کہ حسیب گوہر نے بتایا شواہد کے ساتھ کہ 8 کاپیاں واپس آ گئی تھیں مگر وزیراعظم ہائوس سے نہیں آئی ، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ دستاویزات واپس آنے کی بھی انٹری ہوتی ہے۔ پراسیکیوٹر نے کہا کہ کچھ باقاعدہ پراسیس کے تحت واپس آتیں کاپیاں اور کچھ ذاتی حیثیت میں واپس کی جاتی ہیں، شمعون قیصر نے بیان میں بتایا کہ وزیر اعظم ہائوس میں کاپی وصول کرنے کے دستخط موجود ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سیکرٹری مان رہا کہ سائفر کی کاپی مجھے وصول ہوگئی ہے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ اعظم خان کی گمشدگی کی ایف آئی آر ہوئی تھی اس کا کوئی سٹیٹس ہے۔ عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل کو ہدایت کی کہ آئندہ سماعت پر اس ایف آئی آر کی رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے، جس شکایت پر ایف آئی آر درج ہوئی تھی وہ بھی ریکارڈ کا حصہ لازمی بنانا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ڈسچارج ہوا یا چالان پیش ہوا ہے یا کیا ہوا مکمل رپورٹ دیں، جو رپورٹ بھی دیں اس پر ایڈووکیٹ جنرل کے دستخط ہونے چاہئیں۔ عدالت نے کیس کی سماعت 2 مئی تک ملتوی کر دی۔