اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ میں ہائیکورٹ ججز کے خط پر ازخود نوٹس کی سماعت میں سپریم کورٹ نے ہائیکورٹ کی بھجوائی تجاویز پبلک کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائزعیسی نے ریمارکس دیئے کہ ماضی میں جو ہوا سو ہوا، اب نہیں، عدلیہ میں مداخلت کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا یہ کیسی ریاست ہے جہاں فون سننا بھی آسان نہیں، اس ایشو کو حل نہ کیا تو بہت نقصان ہوگا۔ جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ بدقسمتی یہ ہے کہ سچ سب کو پتہ ہے لیکن بولتا کوئی نہیں ہے۔ جو بول پڑتا ہے اس کے ساتھ چھ ججز جیسا سلوک ہوتا ہے۔ جب ریاست جارحیت پر اتر آئے کوئی شہری لڑ نہیں سکتا ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ جو ججز دبائو برداشت نہیں کرسکتے جج کی کرسی پر نہیں بیٹھنا چاہیے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں چھ رکنی لارجر بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ ججزکے خط سے متعلق ازخودنوٹس کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہائیکورٹ کی سفارشات اور تجاویز پڑھنے کی ہدایت کی تو جسٹس اطہرمن اللہ نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے یہ سفارشات یا تجاویز نہیں بلکہ چارج شیٹ ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لوگ شاید عدلیہ کی آزادی نہیں چاہتے مگر ہم اس عدالت کی آزادی یقینی بنائیں گے، اندر اور باہر سے حملے نہیں ہونا چاہئیں، اس عدالت کی ماضی کی تاریخ کاذمہ دار نہیں۔ ماضی میں ہائیکورٹس کے کام میں مداخلت کے نتائج اچھے نہیں نکلے، ہم نے مداخلت نہیں کرنی۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا ہائیکورٹ خود اقدامات نہیں کرسکتی؟۔ اٹارنی نے بتایا کہ بالکل ہائیکورٹ خود اقدامات کر سکتی ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کچھ کیسز میں بدترین احتساب کی مثالیں موجود ہیں، ہمیں اب آگے بڑھنا ہے، ہم کسی سیاسی قوت یا کسی مخصوص ایجنسی کیلئے ہیر پھیر نہیں کرنے دیں گے، ہم کسی سیاسی طاقت، حکومت یا ادارے کے ہاتھوں استعمال نہیں ہوں گے، ہم وکلا یا حکومت کو بھی ایسا نہیں کرنے دیں گے، کیا ہمارے ماتحت بار کے صدور ججز سے چیمبرز میں نہیں ملتے، کیا یہ عدلیہ کی آزادی میں مداخلت نہیں ہے، بہت پہلے کی بات ہے کسی نے مجھے کہا فون ٹیپ ہو رہا ہے، میں نے کہا ٹھیک ہے ٹھیک طریقے سے انہیں سننے دیں۔ جسٹس اطہرمن اللہ نے کہاکہ ججز جوکہہ رہے مداخلت ایک مسلسل جاری معاملہ ہے، ہمارا کوئی رسپانس نہیں ہوگا تو ججز بے خوف نہیں ہوں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی کیلئے بااخیتار ہونا بھی ضروری ہے۔ مانیٹرنگ جج کی تعیناتی اور ایجنسیوں پر مشتمل جے آئی ٹی کی تشکیل بھی مداخلت تھی۔ بتا سکتا کس طرح اس عدالت کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کیا گیا۔ جب سے چیف جسٹس بنا ایک بھی مداخلت کا معاملہ میرے پاس نہیں آیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ ہمیں مداخلت کے سامنے ایک فائر وال کھڑا کرنا ہوگی، ہمیں مسئلے کو حل کرنا ہوگا، آج حل نہ کیا تو بہت نقصان ہوگا۔ مسائل اندرونی ہوں یا بیرونی آج موقع ہے حل کریں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پورا کیس عدلیہ کی آزادی سے متعلق ہے، عدلیہ میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے، اندرونی و بیرونی طور ایسا نہیں ہونا چاہیے، ہائیکورٹس کے پاس توہین کا اختیار تھا لیکن انہوں نے کچھ نہیں کیا، افتخار چوہدری کیس، بے نظیر بھٹو کیس، دھرنا کیس کی مثالیں موجود ہیں، ایک کمرے میں نہ بیٹھو ادھر بیٹھو کوئی سن لے گا، یہاں کوئی بات نہ کرو کوئی سن لے گا، بڑا بھائی سب دیکھ رہا ہے یہ کیا کلچر ہے۔ اس پر اٹارنی جنرل بولے کہ یہ شرمناک اور ناقابل قبول ہے۔ جسٹس اطہرمن اللہ نے جسٹس بابرستارسے متعلق سوشل میڈیا کمپین کا تذکرہ کرتے ہوئے کہاکہ حکومتی اداروں کے پاس موجود ججز کا ڈیٹا لیک ہونا درست نہیں، جسٹس مسرت ہلالی نے کہاکہ جو مداخلت کے خلاف کھڑا نہیں ہوتا اسے جج کی کرسی پر بیٹھنے کا حق نہیں۔ جسٹس اطہرمن اللہ نے کہاکہ انٹیلی جنس ادارے کچھ کرتے ہیں تو اس کے ذمہ دار وزیراعظم اور ان کی کابینہ ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے فیض آباد دھرنا کا تذکرہ کرتے ہوئے کہاکہ لکھ کردیا تھا کہ جنرل فیض حمید اس کے پیچھے تھے تاہم معاملہ بعد میں چھوڑ دیا گیا۔ بیوروکریسی کو بھی فون آتے ہیں جو دبائو برداشت کرتے ہیں او ایس ڈی بنا دئیے جاتے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ اگر عدلیہ اپنے دروازے نہ کھولے تو دبائو نہیں ہوگا۔ جو دروازے کھولتے ہیں ان کیخلاف مس کنڈکٹ کا کیس ہونا چاہئے، جب کوئی جج بولتا ہے اس کیخلاف مہم چلائی جاتی ہے، جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا اتنا بڑا فیصلہ آیا حکومت نے کیا کیا؟۔ اٹارنی جنرل بولے اس میں کئی سابق ججز بھی ملوث ہیں۔ جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے سابق چیف جسٹس ہو یا موجودہ کارروائی کریں، احتساب تو ہونا چاہیے۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ مداخلت کا دروازہ بند کرنے کیلئے نظام بنانا ہوگا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ پشاور ہائیکورٹ کا جواب سب سے سنجیدہ ہے، جو کہتے ہیں ہمیں جان سے مار دینے کی دھمکیاں آتی ہیں۔ بعد ازاں چیف جسٹس نے تمام فریقین کو تحریری معروضات جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 7 مئی تک ملتوی کردی۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق ایک موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر میں مداخلت پر درست فیصلہ نہیں کر سکتا تو مجھے گھر چلے جانا چاہئے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پارلیمنٹ مضبوط نہیں ہو گی تو دوسرے ادارے کیسے ہوں گے‘ سپریم کورٹ کے رولز پارلیمنٹ بناتی ہے۔
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) ہائیکورٹ ججز کے خط سے متعلق ازخودنوٹس کیس میں ہائیکورٹس کی جانب سے جمع کرائی گئی تجاویز سامنے آ گئیں. ہائیکورٹس کی تجویز میں اعلی عدلیہ اور ضلعی عدلیہ کے کوڈ آف کنڈکٹ میں ترمیم کرنے اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مداخلت کے سدباب کیلئے مستقبل میں طریقہ کار طے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ ٹیلی فون ٹیپنگ اور ویڈیو ریکارڈنگ کرنے والوں کیخلاف قانون کے تحت کارروائی کرنے کی بھی تجویز دی گئی ہے. تفصیلات کے مطابق پشاور ہائیکورٹ کی سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی تجاویز میں کہا گیا ہے کہ جب کوئی جج حلف لیتا ہے تو کسی بھی قسم کا دبا نہ لینے کی قسم کھاتا ہے،جج کے حلف میں لکھا ہے کہ وہ نہ دبا میں آئے گا نہ انصاف کی فراہمی میں ریاستی و غیر ریاستی عناصر کی مداخلت برداشت کرے گا،آئینی معاملات میں ہائیکورٹ چیف جسٹس اور ججز پر مشتمل ہوتی ہے، ایسا کوئی ضابطہ نہیں جو انتظامیہ یا ریاستی اداروں کو ججز کے کام میں مداخلت کی اجازت دیتا ہو، صرف سپریم جوڈیشل کونسل ہائیکورٹ و سپریم کورٹ ججز کے خط کے ضابطہ اخلاق کی نمائندگی کرتا ہے،ججز کے ضابطہ اخلاق میں عدلیہ کے اندر ہونے والی مداخلت کے روک تھام کے لیے کوئی رہنمائی موجود نہیں ہے، پارلیمانی امور، سیاست اور عدالتی امور میں مداخلت ایک اوپن سیکرٹ ہے،سیاسی مقدمات میں ججز ایجنسیوں کی مداخلت کا شکوہ کرتے نظر آتے ہیں، کچھ ججز نے شکایات کیں کہ خفیہ ایجنسیوں نے سیاسی مقدمات میں فیصلے اپنی مرضی کے کروانے کے لیے مداخلت کی، بات نہ ماننے کی صورت میں ججز کو افغانستان سے غیر ریاستی عناصر نے جان سے دھمکیاں ملیں،ججز کو دھمکیاں ملنے کے بعد محکمہ انسداد دہشتگری کے سامنے اٹھایا گیا لیکن کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، ججز کو دھمکی ملنے کے معاملات اعلی سطح پر بھی اٹھایا کیا، یہاں ہم ایسے فیصلے کا حوالہ دیتے ہیں جس میں انٹیلیجنس ایجنسیوں کی سیاسی انجینئرنگ کی حوصلہ شکنی کی گئی،سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ایجنسیوں کی سیاست اور عدالتی امور میں مداخلت کی ممانعت کی گئی،اعلی عدلیہ کے جج کو ڈرانے دھمکانے سے روکنے کے لیے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر عمل کیا جانا چاہیے،ہائیکورٹس کو اس معاملے پر مربوط لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے۔