پاکستان میں اپنے عہد کے ممتاز صحافی، ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ کے مالک و مدیر اور شعلہ فشاں مقرر و خطیب آغا شورش کاشمیری کی یاد میں ’’حمید نظامی پریس انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان نے 30 اکتوبر 2010ء کو پاکستان کے سابق صدر رفیق تارڑ کی صدارت میں گراں قدر تقریب کا انعقاد کیا، مقررین میں نوائے وقت گروپ آف پبلیکیشنز کے مقبول ہفت روزہ ’’فیملی‘‘ کے ایڈیٹر علی سفیان آفاقی، کالم نگار حافظ شفیق الرحمان، آغا شورش کاشمیری کے صاحبزادے مسعود شورش اور راقم الحروف بھی شامل تھے، واقعتاً راقم الحروف ہی اس تقریب میں ایک ایسے مقرر تھے جنہوں نے آغا شورش کاشمیری کے ہمعصر کے طور پر صحافت و خطابت کے میدان میں اپنے ’’توسنِ اظہار و قلم‘‘ کو رواں رکھنے کا جوہر آزمایا، فروری 1966ء میں شاہراہ قائداعظم محمد علی جناح لاہور کے وائی ایم سی اے ہال میں نوائے وقت کے بانی ایڈیٹر جناب حمید نظامی کی یاد میں جو جلسہ منعقد کیا گیا اس کی صدارت کے فرائض پاکستان کے ایک سابق مرکزی وزیر اور اٹارنی جنرل چودھری نذیر احمد نے ادا کئے اور آغا شورش کاشمیری اس تقریب کے ایک آتش نوا مقرر ہونے کے علاوہ نظامت و نقابت کے فرائض بھی ادا کر رہے تھے مگر میدان راقم الحروف یعنی علامہ چودھری اصغر علی کوثر وڑائچ نے مار لیا، ہم اس زمانے میں شہرۂ آفاق ناول نگار جناب نسیم حجازی کے اخبار روزنامہ ’’کوہستان‘‘ سے مربوط تھے اور آزادیٔ اظہار اور آبروئے قرطاس و قلم کے تحفظ کے باب میں جرأت و شجاعتِ زبان و بیان اور حقائق و واقعات کا وہ معیار قائم کیا کہ اس وقت ’’نوائے وقت‘‘ کے چیف رپورٹر شریف فاروق نے روسٹرم پر آ کر اعلان کیا کہ چودھری اصغر علی کوثر وڑائچ نے جس بے خوفی و بے باکی سے آزادیٔ اظہار و اخبارات و تحریر و تقریر کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے وہ تاریخ کا سنہری باب رہے گا اور میں ان کی عظمتِ خطابت کا اعتراف کرتے ہوئے ان کو ’’شیرِ ببر‘‘ کا خطاب دیتا ہوں پھر ڈاکٹر جاوید اقبال نے جو سٹیج پر ہی تشریف فرما تھے روسٹرم پر آ کر شریف فاروق کی تائید کی اور فرمایا کہ میرے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ میں اس نوجوان صحافی کی جرأت اظہار کی ستائش کر سکوں، چنانچہ آغا شورش کاشمیری نے بھی روسٹرم پر آ کر فرمایا کہ معلوم ہوتا ہے کہ چودھری اصغر علی کوثر وڑائچ ’’روزنامہ کوہستان‘‘ سے مستعفی ہو کر آگئے ہیں ورنہ ایوب خان کے عہد جبروت و آمریت میں اور پھر ان کے اخبار کا مدیر مخابرات ہوتے ہوئے ایسی جرأت و شجاعت کا اظہار کر دینا کچھ آسان نہیں، اس وقت نوائے وقت کے چیف ایڈیٹر جناب مجید نظامی نے جو سٹیج پر ہی تشریف فرما تھے آغا شورش کاشمیری کو بلا کر وہ فرمایا کہ وہ اعلان کر دیتے کہ اصغر علی کوثر وڑائچ ملازمت کی فکر نہ کریں کیونکہ ان جیسے صحافی حریت پسندوں پر ہم ہزاروں ملازمتیں قربان کر سکتے ہیں، دیگر کئی مواقع پر بھی آغا شورش کاشمیری سے راقم الحروف کی بصد احترام پنجہ آزمائی رہی جو اس نوعیت کی پنجہ آزمائی کبھی نہ رہی جو آغا شورش کاشمیری ہفت روزہ ’’اقدام‘‘ والے میاں محمد شفیع (م، ش) یا ’’ایشیا‘‘ والے ظہور الحسن ڈار یا ان کے ساتھیوں سے کرتے رہے، بہرحال ہم نے آج کی تقریر میں آغا شورش کاشمیری کو دلی خراجِ ستائش پیش کیا مگر علی سفیان آفاقی کی تقریر آغا شورش کاشمیری کی پوری زندگی کے بارے میں ایک تحقیقاتی مقالے کا درجہ رکھتی تھی اور وہ مقالہ اس تقریب کے نظامت کار ابصار عبدالعلی نے پڑھ کر سنایا اور واقعہ وہ ہے کہ وہ مقالہ پڑھنے ہی سے تعلق رکھتا ہے اور عین ممکن ہے کہ آفاقی اس کو ’’فیملی‘‘ میں شائع کر دیں، آخر میں صدرِ مجلس رفیق تارڑ نے بھی اپنے دھیمے انداز میں وہ یادیں تازہ کیں جو آغا شورش کاشمیری کے ساتھ ان کی ملاقاتوں نے ان کے قرطاسِ دل و دماغ پر منقش کر دی ہوئی ہیں، آج کی تقریب میں مولانا ظفر علی خان اور حمید نظامی کا تذکرہ بھی ہوتا رہا مگر ہمارے سوا وہاں کوئی ایسا مقرر نہیں تھا جس نے آغا شورش کاشمیری کے ساتھ اسی سٹیج سے کبھی کوئی تقریر بھی کی ہو، خود رفیق تارڑ جو اپنے بیان کے مطابق 1960ء کی دہائی میں آغا شورش کاشمیری کے واقف ہوئے آغا شورش کاشمیری کے وفات پا جانے تک ابھی سرکاری ملازمت میں تھے مگر آج انہوں نے مولانا ظفر علی خان اور آغا شورش کاشمیری کے شعر و ادب سے اپنی تقریر کو ضرور مزین کیا، رب راکھا۔!