بحران شرما شرمی کا

Nov 01, 2010

رفیق ڈوگر
اس پر کون خوش نہیں؟ حضرت اور مولانا فضل الرحمن کہ باراک حسین اوبامہ نے ٹیلیفون کر کے ان کی جمہوریت کے پیرومرشد آصف علی زرداری کو یقین دلایا ہے کہ وہ ان کی جمہوریت اور اس جمہوریت کے اداروں کی سرپرستی جاری رکھیں گے۔ این آر او جمہوریت سید اور گیلانی یوسف رضا کی ہی ضرورت نہیں اوبامہ کی تو اس سے بھی زیادہ شدید ضرورت ہے۔ این آر او شاہ جی کی جمہوریت… وہ خبر تو آپ کی نظروں سے گزری ہو گی وہی وال سٹریٹ جنرل کے تجزیہ والی خبر کہ آصف علی زرداری نے باوردی پرویز مشرف سے بھی زیادہ مدد کی ہے۔ چچا سام کی جنگ دہشت میں، یہی تو حسن یوسفی ہے این آر او جمہوریت کا اس پر کون امریکی مرمر نہیں جائے گا؟ لیکن وہ جو اصل معاملہ تھا جس کی مجبوریوں کے مارے بارک حسین اوبامہ نے بلوچ قوم کے جدی پشتی سردار آصف علی زرداری کو اپنے خرچے پر ٹیلیفون کیا تھا اس کا تو خبریں دینے اور لینے والوں نے کہیں ذکر ہی نہیں کیا۔ عراق پر قبضہ کے اخراجات ہیں افغانستان اور جنوبی ایشیا میں مغربی سامراج کے مفادات کی توسیع و تحفظ کے اخراجات ہیں۔ آپ نے لازماً پڑھا سنا ہو گا کہ امریکہ کی مالی حالت کافی نازک ہو رہی ہے۔ بارک حسین اوباما نے بلوچ قوم کے جدی پشتی سردار کو ٹیلی فون کیا تھا وہ ذاتی خزانہ سے امریکی حکومت کو کچھ قرض دیں تاکہ وہ قبضہ جنگوں کے اخراجات اور پاکستان کی مدد کے وعدے پورے کر سکیں بارک حسین اوبامہ نے مسٹر ہالبروک سے بھی سفارشی ٹیلیفون کروایا تھا کہ سردار جی تم اپنے ذاتی خزانے سے امریکہ کو کچھ قرض دے دو تاکہ امریکہ تمہاری حکومت اور جمہوریت کی مدد کر سکے لیکن ہماری اطلاع کے مطابق ہالبروک کی سفارش کے باوجود اوبامہ کو بھی شرمسار ہی ہوناپڑا تھا بلوچ قوم کے جدی پستی سردار نے یہ تو اس مشترکہ اعلامیہ سے تو اتفاق کر لیا تھا کہ وہ دنیا کے ساتویں نمبر کے امیر ترین فرد واحد ہیں لیکن انہوں نے اوبامہ کو بتایا تھا کہ وہ ان دنوں شدید ترین شرمساری کے بحران میں مبتلا ہیں کہ اسحاق ڈار نے دوبئی میں ان سے زیادہ شان و شوکت والے پلازے بنا لئے ہیں کیا سوچ رہے ہوں گے عرب شیوخ ان کے بارے میں کہ حکمران وہ ہوں اور پلازہ دوڑ اسحاق ڈار جیت جائیں۔ بڑی شرمساری کا بحران درپیش ہے انہیں اور ان کی جمہوریت کو تو اوبامہ نے انہیں تسلی دی تھی کہ اتنے شرمسار نہ ہو ان کا سرے محل ہے پیرس محل ہے شیوخ بھی جانتے ہی ہوں گے تم کسی سرکاری درباری دورے کا پروگرام بنائو اور شیوخ کو ساتھ لے جائو پیرس، لندن وہ سب شرمسار ہو جائیں گے۔ تمہارے محل دیکھ کر شرم نہ کرو اور میری کچھ تو مدد کرو تاکہ میں تمہاری جمہوریت کی مدد کر سکوں مگر وہ امریکی حکومت کو اپنے ذاتی خزانہ سے قرض دینے پر آمادہ نہیں ہوئے تھے۔ اپنے استاد محترمہ ہالبروک کی سفارش کے باوجود بھی سنتے ہیں کہ بلوچ قوم کے جدی پشتی سردار آصف علی زرداری نے اوبامہ سے درخواست کی تھی کہ وہ اور ان کی حکومت انہیں شرمساری کے اس بحران سے نکالنے کیلئے بھی سٹریٹجک تعاون میں توسیع کریں اور چودھری برادران کو حکم دیں کہ وہ پلازے دوڑ میں ان کی مالی مدد کریں بلوچ قوم کے جدی پشتی سردار آصف علی زرداری نے مسٹر اوبامہ کو بتایا تھا کہ ان کے امراض مخصوص کے ڈاکٹر بابر اعوان بھی مالی مدد کے چودھری برادران سے مذاکرات میں کامیاب نہیں ہوئے تھے۔ چودھریوں نے ڈاکٹر مخصوصہ کو جواب دیا تھا کہ مونس الٰہی گیا ہوا ہے کہیں سے کچھ مل گیا تو شرمساری کے بحران سے ہم بھی تعا ون کریں گے مگر وہ تو وعدہ فردا ہی ہوا اور سیاسی اداکار ہیں کہ باز ہی نہیں آ رہے بلوچوں کے سردار کی اسی پریشانی اور شرمساری کو محسوس کرتے ہوئے اوبامہ اور ہالبروک نے باری باری یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ ان کی جمہوریت اور اس کے جمہوریت پسندوں کے ساتھ اتحادوں کے مزید استحکام میں تعاون جاری رکھیں گے۔ یہ بھی سنتے ہیں کہ اوبامہ نے انہیں یعنی بلوچ قوم کے جدی پشتی سردار سے کہا تھا کہ امریکہ کو نہیں تو وہ اپنے آپ کو ہی اپنے ذاتی خزانے سے کچھ قرض دیں اس شرمساری کے بحران سے نکلنے کیلئے لیکن بلوچ سردار نے اپنے آپ کو قرض دینے سے بھی معذرت کر لی تھی کہ اس سے بیرونی بنکوں کا اعتماد بھی کمزور ہو جائے گا ان پر آپ نے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی وہ رپورٹ بھی پڑھی ہو گی کہ کرپشن کے معاملے میں این آر او شاہی مسلسل ترقی کی منزلیں طے کر رہی ہے۔ ایک سال میں تین سو ارب روپے کی کرپشن ہوئی ہے اور آصف علی زرداری کا پاکستان 42 ویں نمبر سے 34 ویں نمبر پر آ گیا۔ ہے بارک حسین اوبامہ اور ہالبروک کی جمہوریت اور جمہوری اداروں کی سرپرستی کی بدولت لیکن سال کے دن تو 365 ہوتے ہیں اور کرپشن ابھی تک ایک ارب روپیہ روزانہ تک نہیں پہنچ سکی اوبامہ کی سرپرستی کے باوجود بھی ہے نہیں یہ بھی شرمساری والی بات؟ معلوم نہیں آپ اس شرم کے اس بحران میں کیا محسوس کرتے ہوں گے۔ چودھری برادران کا حال تو کافی قوی ہو رہا ہے اس شرم کے مارے اور وہ این آر او شاہ سے صرف اور صرف اس شرمساری میں تعاون کرنے جا رہے ہیں کہ کم از کم ایک ارب روپیہ کی روزانہ کرپشن تو ہو جائے۔ ہے نہیں یہ شرم کی بات کہ ملک میں جمہوریت بھی ہو اور کرپشن کا معیار ایک ارب روپیہ روزانہ بھی نہ ہو شریفین غریبین این آر او شاہی سے تعاون پر جو نظر ثانیہ کرتے سنے جاتے ہیں اس کا بنیادی سبب بھی جمہوریت اور اس کے نظامی کی یہی ناکامی ہے ورنہ وہ تو پورے خلوص جمہوریت سے تعاون بدست چلے آ رہے تھے پونے تین سال ہے جمہوریت کے سبب ہی پرستاروں کا تعاون بھی حاصل ہو جمہوریت کو اور وہ ایک ارب روپیہ روزانہ کرپشن کی حد بھی عبور نہ کر سکے؟ ہے نہیں یہ ساری پاکستانی قوم کیلئے شرم کی بات اور اس جمہوریت کے آقا و مولیٰ پیچے رہ جائیں پلازہ دوڑ میں اسحاق ڈار سے؟ شرم ساری کا نہیں یہ تو شرماشرمی کا بحران عظیم ہے۔
مزیدخبریں