چینی ہرگھرکی ضرورت ہے اورہرشہری چینی کی تلاش میں نکلا ہوا ہے مگر نوے روپے کلو کا ریٹ سننے کے بعد اسے ایک مرتبہ دن میں تارے ضرور نظرآتے ہیں اور وہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ چینی شاید اس زمین پر نہیں بنتی جو اس کی قیمت اتنی زیادہ ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ چینی کی قیمت ہرگزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ یوٹیلیٹی سٹور پرپرچی کے بغیرچینی کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہے جبکہ عام دکانوں پرچینی کا رویہ محبوب کی ماند ہے کہ کہیں جھلک نظرآتی ہے اور کہیں یہ چھپ جاتی ہے
دوسری طرف پنجاب حکومت کا کہنا ہے کہ پرائس کنٹرول مجسٹریٹ قیمتیں کنٹرول کررہے ہیں اور چینی کی قیمت بڑھانے کی ذمہ دار وفاقی حکومت ہے۔ شاید شوگرمافیا اور سٹاکسٹ نے سلیمانی ٹوپیاں پہنی ہوئی ہیں جو پرائس کنٹرول مجسٹریٹوں کو نظر نہیں آتے۔ چینی کی قیمت اوررسد کوکنٹرول کرنا وفاقی یا صوبائی ذمہ داری ہے اس کے بارے میں تو ارباب اختیار ہی بتا سکتے ہیںَ۔ مگر اس کا خمیازہ ہر اس شہری کو بھگتا پڑرہا ہے جس کے ووٹوں سے منتخب ہو کر سیاستدان ایوان اقتدار میں پہنچتے ہیں