سیاست میں شائستگی اور اخلاقیات لازم

عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونے سے قبل ہی سیاسی سرگرمیوں اور انتخابی مہم کا آغاز ہو چکا ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کی سیاسی جماعتیں ویسے تو پہلے بھی بڑے بڑے جلسے کرکے اپنی اپنی قوت کا مظاہرہ کر چکی ہیں‘ اگرچہ سیاسی جماعتوں کی مقبولیت کا اندازہ انکے جلسوں سے نہیں لگایا جا سکتا‘ پھر بھی سیاست دانوں اور سیاسی پارٹیوں کیلئے ایسے جلسے کرنا ایک ضرورت بن چکی ہے۔ان جلسوں میں بدنظمی کے ساتھ ساتھ بدزبانی کے مظاہرے بھی عموماً ہوتے رہتے ہیں۔ چند روز قبل حیدرآباد میں پیپلز پارٹی کا بہت بڑا جلسہ ہوا‘ جس میں سندھ میں بلدیاتی بل کے حق میں ایک قرارداد بھی پاس ہوئی۔ اس جلسہ میں سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی‘ وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ‘ وزیر اطلاعات و نشریات قمرالزمان کائرہ اور سابق وزیر قانون مولا بخش چانڈیو جیسے پیپلز پارٹی کے صفِ اول کے رہنماءموجود تھے۔ قرارداد کی منظوری کے بعد مقررین نے اس قرارداد کو قوم پرستوں کے منہ پر طمانچہ قرار دیا۔ قوم پرست بلدیاتی بل کی شدید مخالفت کر رہے ہیں۔ اس کے خلاف وہ ہڑتالیں اور پر تشدد مظاہرے بھی کر چکے ہیں۔ان کا احتجاج ہنوز جاری ہے۔یقینی بات ہے کہ قوم پرست بھی طمانچے والی بات کا جواب اسی لہجے میں دیں گے۔ اسی جلسہ میں مسلم لیگ ن کو طعنہ دیا گیا کہ اس نے وفاق مخالف قوتوں سے اتحاد کیا ہے۔ گویا قوم پرستوں وفاق کا مخالف بھی قرار دیدیا۔ ایسی اشتعال انگیزباتیں صرف حیدرآباد کے جلسے میں ہی نہیں کی گئیں‘ قبل ازیں بھی کئی پارٹیوں کے جلسے اسی طرح کی سمع خراشی کا باعث بنتے رہے ہیں۔ پارٹیوں کی اعلیٰ لیڈر شپ بھی ایسی زبان استعمال کرتی رہی ہے جو شائستگی اور اخلاقیات کے معیار پر پورا نہیں اترتی۔ جلسوں میں زرداری مداری‘ سب سے بڑا جھوٹا‘ بے ایمان‘ بے غیرت‘ فلاں کو فلاں جگہ گھسیٹوں گا‘ فلاں کو چیئرنگ کراس میں سنگ سار کرینگے‘ یہ تو ڈینگی برادران ہیں‘ ایسے الفاظ عموماً سننے کو ملتے ہیں۔ اگر آئندہ انتخابی مہم میں بھی سیاست دانوں نے یہی روش اختیار کئے رکھی تو یقین جانیئے اس مہم کو خونیں مہم بننے سے کوئی محفوظ نہیں رکھ سکے گا۔سیاست دانوں کے عمومی رویے میںتحمل اوربرداشت کا فقدان نظر آتاہے ۔ حیدرآباد جلسے سے ایک روز قبل جلسے کے انتظامات کو تہس نہس کرنے کی کوشش کی گئی۔ ملتان میں یوسف رضا گیلانی کے جلسہ میں بم کی اطلاع گردش کرتی رہی جس کے باعث جلسہ ملتوی کرنا پڑا مخالفین کہتے ہیں کہ عوام کی عدم دلچسپی دیکھ کر یہ بہانہ بنایا گیا۔ اس سے چند روز قبل وزیرِ اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی صاحبزادی نفیسہ شاہ کے نواب شاہ میں جلسے میں فائرنگ سے چھ افراد جاں بحق ہو گئے۔
 ماحول تو پہلے ہی اتنا خوشگوار نہیں‘ اوپر سے حالات بھی بگڑے ہوئے ہیں۔ لوگ لاقانیت کے سائے تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ایسے میں سیاست دانوں نے بھی اپنے سیاسی مخالفین کو للکارنے جیسی اشتعال انگریز زبان استعمال کی تو اندازہ کرلیجئے کہ مہم کیسی ہو گی؟۔ مولاجٹ جیسی زبان کے استعمال سے سیاست دان عوام کے دلوں میں گھر تو ہرگز نہیں کر سکتے‘ البتہ خود کو ضرور ایکسپوز کر لیتے ہیں۔ آپ انتخابی مہم کے دوران اپنا منشور اور پروگرام عوام کے سامنے رکھیں‘ ملکی مسائل کی نشاندہی کریں اور انکے حل کی تدبیر بتائیں۔ ووٹر کو باشعور بنانے کی کوشش کریں۔ الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کی پابندی کریں‘ جو اسکی طرف سے اخراجات کی حد مقرر کی گئی ہے‘ اسکے اندر رہیں۔ آج تک مقررہ اخراجات سے زائد خرچ کرنیوالوں کا احتساب نہیں ہوا۔ دہری شہریت والوں کو کسی نے نہیں پوچھا‘ اب دہری شہریت والوں کو تو لینے کے دینے پڑ گئے ہیں۔ اب یہ بھی ذہن میں رہے کہ چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم ہیں۔پہلے کی طرح الیکشن کمشن کو چکر دینے والے ذہن نشین کر لیں اور اس بات پلے باندھ لیںکہ با اصول ‘ نڈر اور جرات مند چیف الیکشن کمشنر‘ زائد اخراجات کرنیوالوں کا محاسبہ ضرور کرینگے۔ اس لئے بھی ضروری ہے کہ انتخابات کو پرامن بنانے کیلئے سیاست دانوں کو الیکشن کمیشن کے ضابطوں اور قوانین کی پابندی کےساتھ ساتھ شائستگی کا بھی مظاہرہ کرنا چاہیے۔اس خود اپنی عزت میں بھی اضافہ ہو گا اور عالمی سطح پر نیک نامی بھی ہو گی۔

ای پیپر دی نیشن