آئی جے آئی کا پس منظر

Nov 01, 2012

پروفیسر محمد یوسف عرفان

اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) امریکی دباﺅ کے خلاف بننے والا پہلا سیاسی اتحاد ہے جو اپنوں کی ناسمجھی اور غیروں کی ہدف شناسی کی نذر ہو گیا۔ رہی سہی کسر عدالتی فیصلے نے پوری کر دی۔ اس وقت امریکہ کا فوری ہدف ISI کو پاک فوج سے علیحدہ کرکے وزارت داخلہ کے سپرد کرنا تھا۔ جبکہ پاک فوج کی ساری جنگی تیاری میں ISI کا کردار کلیدی ہے چونکہ موجودہ دور میں جنگ کا طریق کار اور حکمت عملی بدل چکی ہے جس کو ISI بخوبی جانتی ہے نیز ISI کے بغیر فوج بند گلی کی دلدل میں لنگڑی، لولی اور اندھی بن کر ختم ہو جائے گی۔ ISI فوج کی شہ رگ ہے۔ ISI کی صفائی ضروری ہے مگر اس کو مجرموں، ملزموں، امریکہ کی کٹھ پتلی پارلیمان، کابینہ اور سیاستکاروں سے بچانا بھی ضروری ہے۔ موجودہ پی پی پی سرکار ابتدائی ڈرامائی اقدامات میں ISI کو وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے کا نوٹیفکیشن کیا گیا جو چند گھنٹوں بعد واپس لے لیا گیا۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اپنے پہلے سرکاری امریکی دورے میں مذکورہ نوٹیفکیشن کا تحفہ ساتھ لے کر جانا چاہتے تھے جس میں نیشنلسٹ احباب آڑے آ گئے اور معاملہ ٹل گیا مگر آج عدالتی فیصلے کے مطابق ISI کی جانب سے آئی جے آئی کو بنانے اور بعض قائدین کو رقم تقسیم کرنے کی تحقیقات کی ذمہ داری ایف آئی اے یعنی وزارت داخلہ کے سپرد کر دی گئی ہے جبکہ وزیر داخلہ رحمان ملک سمیت ایف آئی اے کے مقتدر اکابرین کے خلاف قومی سلامتی سے منسلک کئی مقدمات عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) میں زیر سماعت ہیں۔ امریکہ جو ہدف کئی برس سے حاصل نہ کر سکا وہ عدالتی حکم نے چشم زدن میں عطا فرما دیا۔ موجودہ عدالتی فیصلے کے مضمرات و اثرات آئی جے آئی کے قیام کا پس منظر اور پیش منظر جانے بغیر سمجھ نہیں آ سکتے۔ آئی جے آئی کا قیام افغان جہاد کے پس منظر میں ہوا تھا۔ افغان جہاد میں پاکستان کی پالیسی اور مقاصد امریکی اہداف سے یکسر مختلف تھے۔ حملہ آور روس کے خلاف جہادی مزاحمت اور مجاہدین کی تنظیم و تشکیل ضیاءالحق انتظامیہ کی سوچی سمجھی پالیسی تھی۔ روس کا ہدف کراچی اور گوادر تھا جس کے لئے روس کا مورچہ افغانستان اور نشانہ پاکستان تھا۔ ضیاءالحق کا موقف تھا کہ پاکستان کا دفاع میدانی محاذ میں مشکل اور افغان پہاڑوں میں آسان ہے لہٰذا جنرل ضیاءالحق نے گوریلا جہاد کا آغاز کیا۔ افغان جہاد کے پہلے 3 سال امریکہ و یورپ روسی ہیبت کے باعث سہمے اور ڈرے رہے اس دوران ضیاءالحق انتظامیہ نے مزاحمتی گروپوں کو ملی وحدت و اخوت کے تحت جہادی بنایا۔ انہیں منظم متحد اور متحرک کیا۔ افغان جہاد اور مجاہدین کا قیام پاکستان کی ضیائی انتظامیہ کا کارنامہ ہے۔ امریکی پالیسی اور پروپیگنڈہ کا نتیجہ نہیں۔ جنرل ضیاءالحق نے آغا شاہی کی غداری کے باعث افغان پالیسی وزارت خارجہ سے لے کر ISI کے سپرد کی۔ ISI کی خارجہ پالیسی کے تین اہم نکات تھے۔ افغان جہاد کے لئے امریکی و یورپی یعنی غیر ملکی امداد پاکستان کی شرائط پر دی جائے گی۔ مجاہدین کو غیر ملکی وفد یا امداد براہِ راست نہیں ملے گی۔ آئی ایس آئی نے پہلے 3 سال روس کا کامیابی سے تن تنہا مقابلہ کیا۔ 1984ءکے آخر تک روس کو اپنی واضح شکست نظر آ گئی تھی۔ اسے ضیاءالحق کی قیادت میں جنم لینے والی احیائے اسلام کی جہادی تحریک سے خوف تھا۔ لہٰذا روس نے امریکہ و یورپ سے سرد جنگ بندی اور عالمی امن کے نام پر ہلنسکی معاہدہ کیا۔ اسلامی جہادی تحریک کا مقابلہ عیسائی بلکہ صلیبی انتہا پسندی کی سرپرستی کی۔ امریکہ و یورپ سے لاکھوں انجیل روس تحفتاً درآمد کیں۔ سمنگٹن جیسے کرائے کے لکھاریوں سے تہذیبوں کا تصادم کے موضوع پر کتابیں لکھوائیں۔ پاکستان میں امریکی و یورپی امداد نام نہاد سٹنگر میزائل سے یعنی 1984ءسے باقاعدہ شروع ہوئی۔ یہ امداد جمہوری اور فوجی تھی جس نے ضیاءالحق کے علی الرغم جمہوری و فوجی ہمنوا بنائے اور منظم کئے۔ وزیراعظم محمد خان جونیجو 1985ءمیں وزیراعظم بنے۔ جنہوں نے 1986ءمیں امریکہ و یورپ میں مقیم خود ساختہ جلاوطن بینظیر بھٹو کی والہانہ واپسی کا بندوبست کیا۔ افغان جہاد کو برباد کرکے نہ ختم ہونے والی باہمی خونریزی کا آغاز کیا۔ جنرل ضیاءالحق افغانستان سے روسی فوجی انخلا کے بعد مزاحمتی مجاہدین کی سرکار سازی چاہتے تھے۔ امریکہ و روس، یورپ یعنی عالمی اتحادی برادری افغانستان میں اقوام متحدہ کی زیر نگرانی وسیع البنیاد نسلی، لسانی، علاقائی، قبائلی اور مذہبی فرقہ پرستی پر مبنی حکومت بنانا چاہتے تھے۔ وزیراعظم محمد خان جونیجو نے جنیوا معاہدے کے ذریعے امریکہ و عالمی اتحادی برادری کا ساتھ دیا۔ جنرل ضیاءالحق جنیوا معاہدے سے سخت ناراض تھے۔ ملک کے اندر فوجی و جمہوری تلخی بڑھ گئی۔ جونیجو معزول ہو گئے مگر امریکہ و اتحادی عالمی برادری نے جنرل ضیاءالحق سمیت اعلیٰ ترین فوجی قیادت کو بہاولپور فضائی سازش میں شہید کر دیا۔ پاکستان میں افغان مجاہدین کی ہمنوا بلکہ سرپرست فوجی و جمہوری قیادت کمزور اور تتر بتر ہو گئی۔ امریکہ نے پاکستان میں مرضی کی جمہوری و فوجی قیادت لانے، بنانے، مضبوط اور مستحکم کرنے کے لئے اسلام دشمن سرگرمیوں کا ماہر سابق سی آئی چیف رابرٹ اوکلے سفیر مقرر کیا۔ جس نے نئے آرمی چیف جنرل اسلم بیگ اور صدر غلام اسحاق خان پر دباﺅ ڈال کر بینظیر بھٹو کو آئینی و پارلیمانی قوانین کو بالائے طاق رکھ کر بینظیر بھٹو کو وزیراعظم نامزد کرایا۔ امریکی سفیر رابرٹ اوکلے نے بینظیر سرکار سازی کی کہانی دسمبر 1988ءکے روزنامہ دی نیشن کے ڈیڑھ صفحہ کے انٹرویو میں بیان کی ہے۔ جبکہ اسلم بیگ اور غلام اسحاق خان پہلے ہی امریکی ہمنوا ہونے کی شہرت رکھتے تھے۔ آئی جے آئی پاکستان میں اسلامی قوتوں کے اتحاد اور افغان جہاد کو قومی سلامتی کی راہ پر رکھنے کے لئے ISI کے نیشنلسٹ عناصر کی ناکام کوشش تھی۔ اصغر خان مقدمہ کا فیصلہ پاکستان کے اندر محب وطن نیشنلسٹ قوتوں کو سزا دینے کی روایت ڈالنا ہے۔ ISI پاکستان کی سلامتی سے وابستہ پاکستان کا ادارہ ہے۔ ISI پاکستان کے حالات و واقعات سے سب سے زیادہ باخبر ادارہ ہے جو حکومت کی ہر معاملے میں رہنمائی کرتا ہے۔ خوش قسمتی سے ISI وہ ادارہ ہے جو پاکستان کی ریاستی سلامتی کو ترجیح دیتا ہے۔ پاکستان میں حکومت سے زیادہ ریاست کی سلامتی کو مقدم رکھتی ہے۔ امریکہ و اتحادی برادری کے لئے ISI کا بھی نیشنلسٹ پہلو آنکھ کا کانٹا بنا ہوا ہے۔ اللہ ہمیں دوست اور دشمن کی شناخت کی اہلیت اور صلاحیت دے۔ قرآن کا فرمان ہے کہ مسلمانوں کے حق میں ہونے والی امر اور عمل سے غیر مسلم ناخوش ہوں گے اور مسلمانوں کے لئے نقصان دہ امر اور عمل سے خوش ہوں گے۔ بات واضح ہے آئی جے آئی اور ISI سے کون خوش اور ناخوش ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔

مزیدخبریں