قےام ِپاکستان کے وقت ملک مےں وسا ئل کمےاب تھے ۔ لہٰذا قائدِ اعظم محمد علی جناح کو امرےکہ سے مددکی درخواست کرنا پڑی جو امریکہ نے قبول تو کر لی لےکن امداد کو علاقائی تعاون او ر دیگر منجملہ من مانی شرائط یعنی حقیقتاً Camp Follower سے منسلک کر دےا۔ امرےکہ کی شرائط کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔اُن دنوں حکومت کا نظام سےنٹرل سُپرےر سروسز-CSS-کے افسر چلا رہے تھے جو برطانوی طرز کی انڈےن سول سروسز سے منتخب شدہ،تعلےم ےافتہ اور تربےت ےافتہ افراد تھے۔ ا ن مےں غلام محمدجن کا تعلق آڈٹ اور اکاﺅنٹس سروس سے تھا اور چوہدری محمد علی جےسی نامور شخصےات کے علاوہ غلام فاروق بھی شامل تھے جو آل انڈےا رےلوے کے آفےسر تھے۔ غلام محمد اور چوہدری محمد علی نے معےشت کی وسےع بنےاد رکھنے مےں اہم کردار ادا کےا جبکہ غلام فاروق نے صنعتی شعبے کی ترقی کےلئے پاکستان انڈسٹرےل ڈےولپمنٹ کارپورےشن -PIDC- قائم کی۔
امداد اور قرضے
مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے کاروباری افرادنے اپنی ہنر مندی اور سرماےے سے پاکستا ن مےں کا روبا ر شروع کےا۔ انہےں موزوں کاروباری فضا مہےا کرنے کےلئے پلاننگ کمےشن، انڈسٹرےل ڈےوےلپمنٹ بورڈ، انڈسٹرےل ڈےوےلپمنٹ بےنک آف پاکستان اور پاکستان انڈسٹرےل کرےڈٹ اےنڈ انوےسٹمنٹ کار پورےشن جےسے ادارے تخلےق کئے گئے ۔ پاکستان کے نجی شعبے نے امرےکہ کے زےرِ اثر بین الاقوامی مالیاتی ادارے یعنی انٹر نےشنل فنا نس اور انوےسٹمنٹ سروسز- آئی اےف آےز ۔ کے قرضوں اور امداد پر بھی انحصار کےا ۔ پاکستان انڈسٹرےل ڈےولپمنٹ کارپورےشن کی وساطت سے ملک کے طول و عرض مےں کئی صنعتےں قائم ہوئےں جن مےں تےل، رےفائنرےز،ٹےکسٹائل اور شوگر ملےں وغےرہ شامل تھےں۔ بعد ازاں آسان شرائط پر ان صنعتوں کو کاروباری افراد کو فروخت کرنے کی پےشکش کی گئی تا کہ وہ ان مےں اضافہ کرےں اور مزےد منافع بخش بنا ئےں ۔ ملک مےں نجی شعبے کےلئے امداد اور قرضوں کی فراوانی بھی تھی ۔ عموماًےہ امداد اور قرضے امرےکہ کی شرائط پر ملتے ہےں اور بے فےض ونا کارہ! پاکستان کو بھی ےہ امداد اور قرضے بنےادی طور پر اشےاءکی خرےداری کےلئے ملتے ہےں نہ کہ ملک کے سماجی اور اقتصادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کےلئے جےسے پانی،بجلی،گےس وغےرہ ۔ شرط ہوتی ہے کہ امداد وصول کرنےوالے ممالک اپنی مشےنری، پُرزے اور خام مال وغےرہ امداد دےنے والے ممالک سے ان کی من مانی شرائط پر درآمد کرےں ۔ اےک شرط ےہ بھی ہوتی ہے کہ ان قرضوں اور امداد کی نگرانی ا مداد دےنے والے ممالک کے ماہرےن ہی کرےں ۔ےوں امداد کا اےک حصہ انکے معاوضے کے طور پرواپس انہی کو چلا جاتا ہے ۔ کم و بیش حصہ ہی امداد وصول کرنے والے ممالک کے ہاتھ آتا ہے۔لےکن پورے قرضوں کی ادائےگی انہےں اپنے زرِ مبادلہ سے کرنا پڑتی ہے۔ کیری لوگر بل سپورٹ فنڈ اور دیگر اس طرح کے پروگرام بھی اسی ضمن میں آتے ہیں۔
در حقےقت قرضے اور امداد اےک اےسا طر زِِ عمل ہے جس سے قرضہ دےنے والے ممالک کی تجارت کو فائدہ زیادہ ہوتا ہے۔ عرصہِ دراز سے ےہ سلسلہ جاری ہے۔ مزید براں ورلڈ بینک اور ایف بی آر کی اپنی تحقیق کے مطابق ۵۷ فےصد اب جو چیئرمین ایف بی آر کے مطابق ۷۹ فیصد کہا جا رہا ہے متوازی معیشت ہے جس پر کوئی ٹےکس ادا نہےں کےاجاتا۔اگر اس ۵۷ یا ۷۹ فےصد پرٹےکس ادا کےا جائے تو ملکی مجموعی آمدنی مےں اسقدر اضافہ ہو گا کہ قرضوں اور امداد کی ضرورت نہےں رہے گی ،معےشت مےں خود انحصاری آئےگی اور انفراسٹرکچر کی بنےاد پڑ ے گی جسکی سخت ضرورت ہے۔ ساتھ ہی پی پی پی ےعنی پبلک پرائےوےٹ شراکت داری کےلئے راہ ہموار ہو گی ۔
اقتصادی پسِ منظر
ملک مےں بےشتر اقتصادی ترقی 1947سے 1957 اور صنعتی ترقی1958اور1968 کے دوران ہوئی۔ پاکستا نی مصنوعات کی برآمدات عروج پر تھےں جو ملائےشےا،فلپائن،تھائی لےنڈ اور انڈونےشےا کی برآمدات سے زےادہ تھےں۔جی ڈی پی کی اوسط شرحِ نمو6.8 فےصد تھی۔معےشت مضبوط تھی۔ اسی لئے جب انڈےا نے اپنی کرنسی کی قدر کم کی تو پاکستان نے نہےں کی۔اےوب خان کے دور مےں ہی مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمےان نفرت کے بےج بوچکے تھے ۔ صنعتوں کی نےشنلائزےشن کے بھی اشارے ملنے لگے تھے۔ اس وقت کے چےف اکنامسٹ ڈاکٹر محبوب الحق نے ا ےک جائزہ پےش کےا جس کے مطابق پاکستان مےں دولت صرف بائےس خاندانوں مےں ہی مرکوز تھی۔ اس دولت کا حجم انڈےا کے محض اےک بڑے کاروباری ادارے سے بھی کم تھا۔ بہرحال بظاہر دولت کی مناسب تقسےم کےلئے31 بنےادی صنعتوں،13 بےنکوں،اےک درجن سے زےادہ انشورنس کمپنےوں،کاٹن جننگ فےکٹر ےوں، رائس ہسکنگ ملز یعنی چاول کی بھوسی بنانے والی ملوں او ر ۲ پٹرولےم کمپنےوں کو قومےا لےا گےا ۔اس عمل کو پذےرائی نہےں ملی بلکہ منفی نتائج نکلے ۔ جی ڈی پی کی اوسط شرحِ نمو 6.8 سے گر کر4.8 پرآگئی۔ نےشلائزےشن نے صنعتی ترقی کو بری طرح متاثر کےا۔ سول سروسز کے ڈھانچے کو بھی نقصان پہنچا جو اےوب اور بھٹو کے ادوار مےں پہلے ہی متزلزل ہو چکا تھا۔مختلف وجوہات کی بنا پر کئی افسروں کو فارغ کر دےا گےا اور ےوں سول سروسز کا مضبوط نظام کمزور ہوگےا۔نتےجتاً گورنمنٹ سروس پہلے کی طرح لوگوں کی پسندےدہ ملازمت نہ ر ہی....
آں قدح بشکست و آں ساقی نماند
پرائےوےٹ سےکٹر کی رہی سہی کسر پبلک سےکٹر نے نکال دی جب انہوں نے صنعتی ےونٹوں کو اپنی نگرانی مےں چلانا شرو ع کیا۔ اسی دوران امداد اور قرضوں کے باعث ملک کے سماجی ا نفراسٹرکچرپرپھر بھی توجہ نہ دی گئی۔سرکاری شعبے کی توجہ بھی پانی،گےس،تےل ےا بجلی کے ےونٹ ےا پھر سڑکےں،مواصلاتی نظام اور عمار تےں بنانے کے بجائے صنعتےں لگانے پر مرکوز ر ہی۔گو بعد مےں بے نظےر اور پروےز مشرف کے ادوار مےں تقرےباً سو ےونٹس دوبارہ پرائےوےٹ سےکٹر کو دے دئے گئے لےکن اس وقت بھی سماجی انفرا سٹرکچر کی بہتری کےلئے کچھ نہ کےا گےا۔اسی پسِ منظر مےں پرائےوےٹ پبلک اشتراک کی ضرورت پےش آئی جو قابلِ عمل ہے۔
پرائےوےٹ پبلک اشتراک کا نظرےہ
برطانےہ مےں سب سے پہلے” پرائےوےٹ فنانس انی شی ایٹو “ ۔پی اےف آئی۔ کے حوالے سے پرائےوےٹ پبلک اشتراک ۔پی پی پی۔ کے نظرئےے کو تقوےت ملی۔ وہاں پبلک انفراسٹرکچر مےں پی اےف آئی کی دس سے تےرہ فےصد سرماےہ کاری ہوئی ہے۔ ےہ پراجےکٹ عموماً ”ڈےزائن، بلڈ، آپرےٹ، فنانس“۔ڈی بی ا و اےف۔ جےسے معاہدوں پر مشتمل ہوتے ہےں جو بےس سے تےس سال کے عرصے پر محےط ہوتے ہےں۔ دےگر بڑے پروجےکٹ پی پی پی کے تحت پاےہِ تکمےل تک پہنچتے ہےں۔ مقصد ےہ کہ سرمائے کے منافع بخش ا ستعمال ،انتظامی اخراجات مےں کمی اور رواےتی طرےقوں کے مقابلے مےں منصوبے بہتر اندازمےں ،وقت پر اور بجٹ کے اندر رہتے ہوئے مکمل کئے جائےں۔موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ پی پی پی کو فروغ دےا جائے جس سے حکومت اور صنعتی شعبے کو بدلتے ہوئے حالات مےں اےک مناسب اور بہتر ماڈل بنانے کاموقع فراہم ہوگا۔ ورلڈ بےنک کے ا عداد و شمار کے مطابق انفراسٹرکچر کی سرماےہ کاری مےں 70 فےصد سرکاری شعبے ، 8 فےصد ترقےاتی فنڈز اور 22 فےصد نجی شعبے کا حصہ ہوتاہے۔
پس عالمی حالات اور پاکستان کے تناظر مےں پی پی پی اےک بہترطرزِ عمل ہے۔موجودہ دور مےں کم آمدنی والے ممالک مےں نجی منصوبوں مےں سرماےہ کاری گذشتہ سالوں کے مقابلے مےں تےس فےصد زےادہ ےعنی تقرےباً 96 ارب ڈالر ہو گئی ہے۔
بےوروکرےسی اےک بہترےن طرےقہِ کار ہے لےکن دورِ جدےدمےں اسپےشلائزےشن ےعنی فنانس،سپلائی چےن، افرادی وسائل اور مارکےٹنگ وغےرہ کے حوالے سے کاروباری بصےرت اور انتظامی صلاحےت کار پورےٹ کلچرکا خاصہ ہے۔اب اعلیٰ سرکاری سطح پر بھی اس بات کو تسلےم کےا جارہاہے کہ نجی شعبے مےں مہارت، کارکردگی، جدت، ٹےکنالوجی،فنانس اور سب سے بڑھ کر پروجےکٹ پر رسک لےنے کی صلاحےت نسبتاً زےادہ ہے۔دوسری طرف پرائےوےٹ سےکٹر روشن خےال بےوروکرےسی کی شراکت کے ذرےعے سے بہترےن آجرانہ صلاحےتےں حاصل کر سکتا ہے۔ لہٰذا اسپےشلسٹ بےوروکرےسی اور جنرلسٹ پالےسی سازوںکے اشتراک کی ضرورت ہے۔اسی سے ہی سماجی انفراسٹرکچر مضبوط ہو گا۔سےاست دان بھی اس شراکت مےں اہم کردار ادا کر سکتے ہےں ۔پرائےوےٹ پبلک اشتراک کےلئے کسی اور چےز کی ضرورت نہےں....
جہانِ تازہ کی افکار سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہےں جہاں پےدا
پرائےوےٹ پبلک اشتراک
Nov 01, 2012