پاک امریکہ تعلقات

وزیرِ اعظم پاکستان جناب میاںمحمد نواز شریف اپنا امریکہ کا چار روزہ دورہ مکمل کر لیا۔ یہ دورہ مختلف لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ بین الاقوامی میڈیا نے بالعموم اور پاکستانی میڈیا نے بالخصوص اس دورے سے بہت سی اُمیدیں اور چند فوری حل وابستہ کر رکھے تھے جو کہ حقائق پر مبنی نہیں تھے۔ بین الاقوامی تعلقات میں دیرینہ اور پیچیدہ مسائل کا حل کسی ایک ملاقات یا دورے سے ممکن نہیں ہوتا۔ پاک امریکہ تعلقات کی نوعیت بہت مختلف سی ہے۔ پچھلے چھیاسٹھ سال میں ان تعلقات میں بہت سارے اُتار چڑھاﺅ آتے رہے ہیں۔ بے اعتمادی اور غیر یقینی ہمیشہ سے ہی اِن تعلقات کا خاصہ رہی ہے۔ پاکستانی قوم یہ سمجھتی ہے کہ امریکہ نے اپنے مقاصد کے حصول کے بعد پاکستان کو ہمیشہ تنہا چھوڑا ہے۔ امریکہ کا یہ موقف ہے کہ اس نے پاکستان کی دفاعی اور معاشی ترقی میں سب سے زیادہ حصہ ڈالا ہے۔ خطے کے موجودہ صورت حال کے تناظر میں پاک امریکہ روابط اور تعلقات بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ گزشتہ ایک دہائی میں امریکہ کی اس خطے میں بہت زیادہ مداخلت رہی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان امریکہ کا سب سے اہم اتحادی ہے اور اس سلسلے میں ہمارا ملک شدید متاثر ہوا ہے اور اب تک چالیس ہزار سے زیادہ بے گناہ پاکستانی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ موجودہ حکومت کے بر سرِ اقتدار آنے کے بعد ان تعلقات کا از سرِ نو جائزہ لینے کی ضرورت تھی جس کی وجہ سے وزیرِ اعظم کا یہ دورہ اور امریکی صدر سے ملاقات یقینا اہمیت کی حامل تھی۔ 2014 میں افغانستان سے امریکی فوجیوں کا انخلاءایک انتہائی اہم مرحلہ ہو گا جس کے براہِ راست اثرات پاکستان پر پڑیں گے۔ ماضی میں روسی انخلاءکے بعد افغانستان اور خطے میں پیدا ہونے والے حالات کا سب سے زیادہ نقصان بھی ہمیں ہی اُٹھانا پڑا تھا۔ ہمارا ملک آج بہت سے مسائل کا شکار ہے جن میں معیشت کی ابتر صورتحال،دہشت گردی اور توانائی کا بحران سر فہرست ہیں۔ معاشی بحالی کا براہِ راست تعلق امن و امان کی صورت حال سے ہے۔ ملک میں جاری دہشت گردی کے تانے بانے افغانستان سے ملحقہ قبائلی علاقوں سے ملتے ہیں جن کا براہِ راست تعلق سر حد پار کی صورت سے ہے۔ وزیرِاعظم کے ایجنڈے پر ان مسائل کے علاوہ امریکہ کی طرف سے ڈرون حملے،پاک بھارت تعلقات،طالبان سے مذاکرت اور امریکہ سے تجارتی عدم توازن کو دُور کرنا بھی شامل تھا۔ مختلف امریکی اداروں اور خاص طور پر امریکی صدر اُبامہ سے ملاقات کے دوران وزیرِ اعظم نے ان تمام موضوعات پر پاکستان کا موقف کھل کر بیان کیا جبکہ امریکہ نے بھی اپنے تحفظات اور شکایات کا اظہار کیا۔
باہمی ملاقاتوں اور مذاکرات کے دوران ہر کسی کو اپنے مفادات پیشِ نظر رکھتے ہوئے موقف بیان کرنے کا حق حاصل ہے۔ لہذا امریکہ کی جانب سے قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کی مبینہ پناہ گاہوں، ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی،جماعت الدعوة پر پابندی اور ممبئی حملوں کی تحقیقات میں بھارت کے ساتھ تعاون جیسے معاملات اُٹھانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ مسائل کا حل ہمیشہ ایک دوسرے سے بات چیت میں ہوتا ہے جو کہ رابطوں اور ملاقاتوں کے بغیر ممکن نہیں۔ آج کی دنیا میں کوئی بھی ملک سفارتی تنہائی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ لہذا دوسروں کو ناراض کرنا کوئی دانشمندانہ حکمت عملی نہیں۔
ڈرون حملے یقینا بند ہونے چاہئیںکیونکہ یہ ہماری سا لمیت اور خود مختاری کے خلاف ہیں جس کا حل صرف مطالبوں اور چند ملاقاتوں میں ممکن نہیں۔ ہمارے معروضی حالات کی وجہ سے کسی بھی پاکستانی سر براہِ حکومت کےلئے مغربی ممالک بالخصوص امریکہ سے با ت چیت کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔دہشت گردی اور انتہا پسندی کی بدولت ہمیں دنیا کی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہی کچھ یقینا وزیرِ اعظم کو دوروں کے دوران بھی کرنا پڑا ہو گا۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ روابط اور بات چیت سے آپ اپنا نقطہِ نظر بیان کر سکتے ہیں جس سے غلط فہمیوں کو دور کرنے میں مدد ملتی ہے۔ امریکی صدر کی طرف سے پاکستان کے وزیرِ اعظم کو دورے کی دعوت دینا اور تمام اہم اُمور پر کھل کر بات چیت یقینا ایک خوش آئند پیش رفت ہے جس سے بہتر نتائج کی اُمید رکھنی چاہیے۔ اس طرح کے دورے کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار کسی ایک فیصلے یا اقدام سے متعلقہ نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک مستقل جاری رہنے والا عمل ہے۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...