بجٹ پر تاجروں کے تحفظات اور وزیراعلیٰ پنجاب کا کردار!

پاکستان کی ہر سیاسی پارٹی معاشرے میں موجود مختلف طبقات میں مقبولیت کے حوالے سے اپنا اپنا تشخص، اثرورسوخ اور پہچان رکھتی ہے جیسے پیپلز پارٹی کے محروم ترین طبقہ کی نمائندگی کا دعویٰ کرتی، تحریک انصاف سابق الیکشن میں نوجوان ووٹرز کے عدم اعتماد کے باعث شکست کھانے کے باوجود نوجوان نسل کی نمائندہ جماعت ہونے کا دعویٰ کرتی ہے، ایم کیو ایم جاگیردارانہ نظام کی باغی اور اے این پی خیبر پختونخواہ میں صوبائی مفادات کی نمائندہ کہلواتی ہے لیکن اس لحاظ سے مسلم لیگ (ن) کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ ووٹرز کی عمر یا کسی مخصوص طبقاتی یا صوبائی حلقے کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے کے بائے ملک عزیز کی اس برادری کی علمبرداری پر فخر محسوس کرتی ہے جو ملک کے کونے کونے میں پھیلی ہوئی ہے اور جس کے دم قدم سے پاکستان کی معیشت کی رگوں میں ترقی و بقاءکا خون دوڑ رہا ہے اور وہ ہے پاکستان کی ”تاجر برادری“ اگر سابق اور موجودہ انتخابات کی انتخابی مہم اور نتائج پر نظر ڈالی جائے تو ثابت ہوتا ہے کہ جب جب بھی مسلم لیگ(ن) اقتدار میں آئی، تاجر برادری نے ہر اول دستے کا کردار ادا کیا۔ وزیراعظم نوازشریف اور خادم اعلیٰ پنجاب شہبازشریف کا بیک گراو¿نڈ اور تعلق بھی تاجر گھرانے سے ہے اس لئے وہ صنعت و تجارت کے متعلقہ تمام امور اور مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں اس لئے قائدین تاجر برادری کو ریڑھ کی ہڈی سے تشبیہ دیتے ہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جون میں جو بجٹ برائے 2013-14 پیش کیا اس پر ابتداءمیں تو کوئی خاص ردعمل نہیں آیا لیکن جوں جوں بجٹ دستاویزات کی تفاصیل آنی شروع ہوئیں ویسے ویسے بزنس کمیونٹی کے اضطراب اور بے چینی میں اضافہ ہوتا گیا۔ یہ سچ ہے کہ اسحاق ڈار صاحب کو ایک تباہ حال معیشت ورثے میں ملی ہے جس کو پاو¿ں پر کھڑا کرنے کیلئے پہاڑ جیسے چیلنج کو زیر کرنے کیلئے وہ اہل ترین شخص ہیں لیکن محسوس کیا جا رہا ہے کہ وزیراعظم کے معتمد ترین ساتھی ہونے کے ناطے ان پر وزارت خزانہ کے علاوہ بھی بے شمار ذمہ داریاں ڈال دی گئی ہیں اسکے باوجود اسحاق ڈار نے پہلی ہی فرصت میں بزنس کمیونٹی کے سب سے بڑے نمائندہ ادارہ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں پچھلے ماہ بزنس لیڈروں سے ملاقات کی اور سیر حاصل معلومات کا تبادلہ کیا۔ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے تیرہ مطالبات پیش کئے اور یہ بات نہایت قابل ستائش ہے کہ ڈار صاحب نے تیزی سے عملدرآمد کرتے ہوئے ان میں سے سات مطالبات کو دو ہفتوں کے اندر منظور کر کے نوٹیفکیشن بھی نکال دیئے جس سے تاجر برادری میں کافی حد تک اطمینان پایا گیا تاہم بقایا مطالبات پر پیش رفت سست روی کا شکار ہو گئی کیونکہ ڈار صاحب کو امریکہ اور برطانیہ میں نہ صرف انٹرنیشنل کانفرنسوں میں پاکستان کی نمائندگی کرنا پڑی بلکہ وزیراعظم کے وفد کے ساتھ بھی جانا پڑا۔ تاجر برادری کا اضطراب اس لئے نکتہ عروج کی جانب بڑھنا شروع ہو گیا کہ ٹیکس ریٹرن جمع کروانے کی آخری تاریخ میں دس ہی دن رہ گئے تھے اور انکے بقایا مطالبات کا اس سے پہلے حل ہونا ضروری تھا۔ رفتہ رفتہ بات ہڑتالوں کی دھمکیوں تک جا پہنچی۔ مجھ سے پاکستان کے درجنوں تاجر رہنماو¿ں نے تاجروں کے بڑھتے ہوئے اضطراب کا ذکر کرتے ہوئے خادم پنجاب تک معاملات لے جانے کا مشورہ دیا۔ خادم پنجاب تک جب تاجروں کی خواہش پہنچائی گئی تو انہوں نے ساری مصروفیات ترک کر کے 21 اکتوبر کو تاجر نمائندوں کا اجلاس طلب کر لیا جس میں تقریباً ڈیڑھ سو سے زائد تاجر رہنماو¿ں نے شرکت کی۔ اجلاس کا وقت ایک گھنٹہ مقرر کیا گیا لیکن شہبازشریف صاحب کی تاجروں کے مسائل میں دلچسپی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ اجلاس تقریباً تین گھنٹوں تک جاری رہا۔ شہبازشریف نے اجلاس میں شریک ہر تاجر کی بات کو نہایت توجہ اور انہماک سے سنا تاجروں کے ایک ایک مسئلہ کا تفصیل سے تجزیہ کرتے رہے اور خصوصی طور پر بلوائے گئے چیئرمین ایف بی آر سے بھی انکا نکتہ نظر پوچھتے رہے۔ اجلاس میں دیگر مطالبات کے علاوہ بھی اہم مطالبات پیش کئے گئے ان میں ایف بی آر حکام کی بینک اکاو¿نٹ تک رسائی، سیلز ٹیکس رجسٹرڈ افراد کو ودہولڈنگ ایجنٹ کا کردار دینا، تمام ٹیکس گزاروں پر ویلتھ سٹیٹمنٹ لازمی جمع کروانے کی شرط اور تمام قابل منقولہ اثاثہ جات پر 0.5 فیصد ٹیکس کا نفاذ شامل تھے۔ یہ امر بزنس کمیونٹی کیلئے اطمینان کا باعث ہو گا کہ شہبازشریف صاحب نے اجلاس کے شرکاءکو یقین دلایا کہ انکے اکثر مطالبات کو وہ جائز سمجھتے ہیں اور اس کیلئے وہ بذات خود اسحاق ڈار صاحب سے بات کر کے نومبر کے پہلے ہفتے میں ڈار صاحب کی موجودگی میں ایک اور بھرپور نمائندہ اجلاس بلائیں گے اور تب تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک تاجر بھائی مکمل مطمئن نہیں ہوتے اور مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ آپ کے ایک مطالبے کو ابھی مان لیا گیا ہے اور ریٹرن جمع کروانے کی تاریخ کو ایک ماہ تک بڑھا دیا گیا ہے۔ اسکے بعد انہوں نے رانا ثناءاللہ، ملک پرویز، میاں منان، انجم بٹ، راقم الحروف محمد علی میاں، شیخ آصف اور دیگر تاجر رہنماو¿ں پر مشتمل ایک فالو اپ کمیٹی تشکیل دیدی جو تین نومبر سے پہلے پہلے ایف بی آر حکام سے مل کر قابل عمل تجاویز تیار کریگی۔ تاجر جلد از جلد اس کمیٹی کی تشکیل کے خواہش مند ہیں۔

ای پیپر دی نیشن