لندن (کے پی آئی) برطانوی نشریاتی ادارے نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ خطے کے امن و استحکام کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہے ۔ اسی لئے پاکستان کی حکومت نے کشمیری ’جہادی‘ گروپوں کی حوصلہ شکنی لیے بعض اقدامات کئے ہیں اور معیشت اور امن کی فروغ کی جانب زیادہ توجہ دی ہے لیکن اس کے باوجود بھارت کو ایک سٹریٹیجک خطرہ سمجھا جا رہا ہے۔اس سال اگست میں دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان کنٹرول لائن پر جھڑپیں ہوئیں۔ اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ پاکستان پراکسی گروپوں کے ساتھ تعلقات برقرار رکھے گا تاکہ ضرورت کے وقت انہیں استعمال کیا جا سکے۔بی بی سی کے مطابق 2014ءمیں افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد مختلف حلقوں کی جانب سے یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں ’جہاد ‘ پھر سے شروع ہو سکتا ہے؟ماضی میں ایسا دیکھا گیا ہے کہ ’جہادی گروپوں‘نے اپنے ٹھکانے تبدیل کئے ہیں جس سے اس خدشے کو تقویت ملتی ہے کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے نکلنے کے بعد پنجابی طالبان کے نام سے مشہور عسکریت پسند اپنی توجہ مقبوضہ کشمیر کی جانب کر سکتے ہیں۔ اس حوالے سے دو مختلف آرا سامنے آتی ہیں۔ ایک یہ کہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان اشتعال دائمی مسئلہ ہے جبکہ دوسری رائے یہ ہے کہ کشمیر کے بارے میں دونوں ممالک کی فوجی اور سویلین قیادت کی سوچ میں فرق ہے۔کشمیر کا تنازع پاکستان کی دفاعی اور سٹریٹیجک پالیسی کا مرکزی نکتہ بن گیا ہے اور ممکن ہے پاکستان اب بھی انتہا پسند قوتوں کے لئے نرم گوشہ رکھتا ہو۔اس کے علاوہ گذشتہ کئی دہائیوں سے دونوں ملکوں کی جانب سے ایک دوسرے پر لگائے گئے الزامات اور ہونے والی جنگوں کی وجہ سے لگنے والے زخم اتنے گہرے ہیں جن کا جلدی مندمل ہونا قدرے مشکل ہے۔