عوام کو سبز باغ دکھانے والے اپنا سرمایہ محفوظ کر رہے ہیں، اب نہ خادم عوام کو دستیاب ہے نہ ان کے چمچے کڑچھے : عمران خان !
تحریک انصاف کی آمد سے جس طرح ہمارے ملک کی سیاست کو ایک نیا انداز ملا اور ممی ڈیڈی گروپ عوامی مسائل سے آگاہ ہُوا۔ اسی طرح سیاستدانوں میں عمران خان کی آمد سے ایک اور بذلہ سنج کردار کا اضافہ ہُوا۔ وہ جس طرح نپے تُلے الفاظ میں حکمرانوں اور انکی جماعت کو نشانہ بناتے ہیں اس میں کبھی کبھار تو شیخ رشید کے انداز کی جھلک ملتی ہے اگر یہ دونوں سیاسی میدان میں اکٹھے ہو جائیں تو کیا مزہ آئیگا۔ مگر لگتا ہے یہ دونوں اندر سے خائف ہیں ایک دوسرے سے کہ اگر اکٹھے ہو گئے تو کسی نہ کسی ایک کا چراغ تو گُل ہو جائے گا اس لئے اپنے اپنے مورچوں سے حکمرانوں پر حملے کر رہے ہیں اور پھبتیاں کستے ہیں اب یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ کون کونسا سیاستدان بیرون ملک اپنا سرمایہ محفوظ کر رہا ہے اور کس کس نے بیرون ملک سرمایہ کاری کر رکھی ہے ....
آئینہ ان کو دکھایا تو بُرا مان گئے
جان کہہ کر جو بُلایا تو بُرا مان گئے
پہلے ہم تو یہی سُنتے آئے ہیں کہ ہمارے کئی سیاستدان باہر سے پیسے وصول کرتے ہیں، کوئی تحریک چلتی ہے تو اسے بھی بیرونی امداد کا کرشمہ کہا جاتا ہے۔ پہلے تو اتنا بھرم تھا ہی کہ سیاستدان پیسے وصول کر کے گھر لاتے تھے اب تو یہ حالت ہے کہ ملکی سرمایہ لوٹنے والے سیاستدان یہ قیمتی سرمایہ بیرون ملک بنکوں میں رکھتے ہیں۔ وہاں کاروباری ادارے اور جائیدادیں بناتے ہیں مگر شاید وہ بھول جاتے ہیں کہ انہیں مرنے کے بعد اسی وطن کی مٹی میں جگہ ملنی ہے جہاں سے سب کچھ لوٹ کر یہ غیروں کے بنک بھر رہے ہیں۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
ناقص بیٹنگ اور حکمتِ عملی، پاکستان جیتا ہُوا میچ ایک رنز سے ہار گیا !
ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہئے، جب ایک ٹیم کی بجائے ہر کھلاڑی انفرادی کھیل پیش کرنے کی کوشش کر ے گا تو پھر ایسا ہی نتیجہ سامنے آئے گا۔ اتنا شرمناک کھیل تو بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے مگر یہ موقع بھی تو قسمت والوں کو ملتا ہے۔
ہمارے پرانے تجربہ کار کھلاڑی اور کرکٹ کے حقیقی خیر خواہ پی سی بی کے کرتا دھرتا اس دلجمعی کے ساتھ لگے رہے تو ہماری کرکٹ ٹیم اور کرکٹ کے کھیل کا کباڑہ اسی طرح ہوتا رہے گا اور شرمناک شکستوں کے داغ اسی طرح ہمارے ماتھے پر سجتے رہیں گے ....
نہ سمجھو گے تو مٹ جاﺅ گے اے ”پی سی بی“ والو
تمہاری داستان تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں
نان پروفیشنل انتظامیہ اور عہدیدار کس طرح اپنے کام سے انصاف کر سکتے ہیں، من پسند افراد کی بھرتی فنڈز اور عہدوں کی سیاسی تقسیم کس طرح کسی شعبے کا ستیاناس کرتی ہے وہ اگر دیکھنی ہو تو ہمارے کھیلوں کے شعبے اور وزارت پر نظر ڈالنا ہی کافی ہے۔ اچھے اور نئے ٹیلنٹ کو اول تو سامنے ہی آنے نہیں دیا جاتا کہ اس سے پرانے کاٹھ کباڑ کو نکالنا پڑتا ہے۔ اگر کوئی آ گیا تو پرانے سیاست باز کھلاڑی اور انتظامیہ اس کو ایسا رگیدتی ہے کہ اس کھلاڑی کو اپنی سلیکشن پر افسوس ہوتا ہے، پہلے کھیلنے والے کو چوتھے پانچویں اور آخری کھلاڑی کو نمبر ون پر لا کر ان کی تمام تر صلاحیتوں کا کباڑہ کر دیا جاتا ہے۔
ویسے کرکٹ کا ہر کھلاڑی خود کو ون مین شو کے طور پر پیش کرنے کے چکر میں اور انتظامیہ اپنے عہدے بچانے کیلئے ہاتھ پاﺅں مار رہی ہے تو پھر کھیل کو تو ختم ہی سمجھیں‘ رہے ہمارے غیرملکی مہنگے کوچ نامعلوم یہ کس مرض کی دوا ہیں اور انہوں نے کونسی توپ چلائی۔ انکی کارکردگی جانچنے کیلئے ، کل کا میچ ہی عمدہ مثال ہے۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
وزیر داخلہ کی طرف سے دہشت گردی کے حوالے سے متضاد اعداد و شمار پیش کرنے پر سینٹ میں ہنگامہ !
ایوان بالا کے کام بھی اسی طرح اپنے نام کی طرح بالا بالا ہی سرانجام پاتے ہیں۔ سینٹ یعنی ایوان بالا کی نشستیں بھی کروڑوں میں بکتی ہیں اور اچھی قیمت دینے والا خریدار اس تماشہ گاہ میں تماش بین بن جاتا ہے۔ گزشتہ روز چودھری نثار نے جس طرح ڈرون حملوں میں ہلاک شدگان کے بارے میں متضاد اعداد و شمار پیش کر کے ارکانِ سینٹ کا پارہ چڑھانے کی کوشش کی اس سے ان کے من میں موجود کسی حکومتی منصوبے کی بھی عکاسی ہو گئی اور اپوزیشن ارکان نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا ورنہ ہم تو ایوان بالا کو ”مدھو بالا“ قسم کی کوئی چیز سمجھنے لگے تھے مگر کل کی کارروائی نے ثابت کر دیا کہ سینٹ میں بھی لہو گرم رکھنے کے بے شمار مواقع دستیاب ہوتے ہیں اور اس بار تو چودھری نثار جیسے زیرک وزیر داخلہ نے بھی یہاں گرما گرمی پیدا کر دی ۔
ہمیں حیرت ہے کہ اپوزیشن نے کس طرح کہہ دیا کہ وہ مارشل ایڈمنسٹریٹر کی طرح حکم چلاتے ہیں بلکہ درست یہ ہے کہ انہیں تو کوئی مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تک نہیں چھیڑ سکتا۔ وہ تو سدا بہار قسم کے سیاستدان ہیں جو گھر میں رہیں یا دفتر میں حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں ان کو دیکھ کر یہ گنگنانے کو جی چاہتا ہے کہ....
وہ میرے سامنے تصویر بنے بیٹھے ہیں
میرے ہر خواب کی تعبیر بنے بیٹھے ہیں
کبھی کبھار ہی لب کھولتے ہیں بولتے ہیں مگر جب بولتے ہیں تو پھر ”ہم بولے گا تو بولو گے کہ بولتا ہے“ والی کیفیت نظر آتی ہے۔
جمعة المبارک‘ 26 ذی الحج 1434ھ ‘ یکم نومبر2013ئ
جمعة المبارک‘ 26 ذی الحج 1434ھ ‘ یکم نومبر2013ئ
Nov 01, 2013