لال مسجد آپریشن کے نتیجے میںمسجد کے نائب خطیب غازی عبدالرشید اور اُن کی والدہ کے مقدمہ ءقتل کی تفتیش پر مامور مشترکہ ٹیم نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو بے گناہ قرار دے دیا ہے ۔ تحقیقاتی ٹیم کے مطابق ” پرویز مشرف لال مسجد آپریشن کے دوران وقوعہ پر موجود نہیں تھے اور نہ ہی کوئی ایسی شہادت سامنے آئی ہے کہ اُن کی طرف سے آپریشن کی ہدایت کی گئی ہو اور تفتیش کے دوران کوئی ایسا گواہ سامنے نہیں آیا جس نے غازی عبدالرشید اور اُن کی والدہ کو قتل ہوتے دیکھا ہو“۔ یاد رہے کہ مقتول غازی عبدالرشید کے بیٹے مسّمی ہارون الرشید کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے مسٹر جسٹس نور الحق نے 12جولائی 2013ءکو حُکم دیا تھا کہ” اگر جنرل(ر) پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ قابل دست اندازی پولیس ہو تو قانون کے مطابق قتل کا مقدمہ درج کِیا جائے“۔
لال مسجد آپریشن کا پس منظر یہ ہے کہ مولانا عبدالعزیز (خطیب)اور اُن کے بھائی غازی عبدالرشید (نائب خطیب) کی حیثیت سے مسجد میں سرکاری ملازم تھے ۔ انہوں نے غیر قانونی طور پر مسجد اور اُس سے ملحقہ جامعہ حفصہ میں عسکریت پسندوں اور لاٹھی بردار خواتین کو جمع کر لِیا تھا ۔ 6اپریل 2007ءکو، مولانا عبدالعزیز نے ،نفاذِ شریعت اور لال مسجد میں شرعی عدالت کے قیام کا اعلان کر کے وفاقی حکومت کو وارننگ دی تھی کہ” اگر اُس نے ملک میں نفاذِ شریعت کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے اور مسجد اور اُس سے ملحقہ جامعہ حفصہ کی انتظامیہ اور طلبہ اور طالبات کے خلاف کسی کارروائی کی کو شش کی تو، اُس کے جواب میں پورے پاکستان میں فدائی حملے ہوں گے“۔ غازی عبدالرشید بڑے بھائی کے معاون تھے۔ دونوں بھائیوں کے حُکم پر جامعہ حفصہ کی ڈنڈا بردار خواتین نے بعض گھروں پر چھاپے بھی مارے اور چینی بیوٹی پارلر کی کُچھ خواتین کو بھی اغوا کر کے حبسِ بے جا میں رکھا۔
12اپریل2007ءکوبرسرِ اقتدار جماعت مسلم لیگ ق کے صدر چودھری شجاعت حسین کا بیان میڈیا کی زینت بنا ،جس میں کہا گیا تھا کہ” مولانا عبدالعزیز اور غازی عبدالرشید کا اصرار ہے کہ صدر جنرل پرویز مشرف فوری طور پر مُلک میں شریعت نافذ کر دیں“۔ انہی دِنوں وفاقی وزیر مذہبی امور جناب اعجاز الحق کا یہ بیان کئی بار پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر آیا ،جِس میںکہا گیا تھا کہ” مولانا عبدالعزیز اور عبدالرشید غازی 2004ءمیں دہشت گردی میں ملّوث تھے، لیکن میں نے صدر جنرل پرویز مشرف سے درخواست کر کے انہیں معافی لے دی تھی اور دونوں بھائیوں نے توبہ کر کے حکومتِ پاکستان کو یقین دلایا تھا کہ وہ آئندہ کوئی قابلِ اعتراض حرکت نہیں کریں گے“۔ 15اپریل2007ءکو روزنامہ” جنگ“ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ” خُفیہ اداروں نے وفاقی حکومت کو خبردار کیا گیا ہے کہ” لال مسجد والوں کے بَیت اللہ محسود سے روابط ہیں اور یہ کہ اسلام آباد ائر پورٹ اور اسلام آباد ہوٹل میں خود کش حملے کرنے والوں کا تعلق لال مسجد سے ملحقہ مدرسے سے تھا“۔
17اپریل2007ءکو پشاور میں وفاق اُلمدارس جمعیت عُلماءاسلام ( سمیع الحق)جمعیت عُلماءاسلام( فضل الرحمٰن ) اور دیگر مذہبی جماعتوں کے ایک کنونشن کے اختتام پر ایک مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ” فاٹا سے لال مسجد تک نفاذ شریعت کے تمام اعلانات اور خود کُش حملے غیر شرعی ہیں اور حجّاموں ویڈیو کیسٹو ں اور سی ڈیز فروخت کرنے والی دکانوں کو تباہ کرنا اور تعلیمی اداروں کو دھمکی آمیز خطوط لِکھنا خانہ جنگی کی کوشش ہے“۔ 3جولائی2007ءکو پاک فوج کو لال مسجد کے مکینوں کے خلاف آپریشن کرنا پڑا جس کے نتیجے میں لال مسجد میں مورچے سنبھالے ہُوئے 103 عسکریت پسند مارے گئے ۔20 اپریل2013ءکو شریعت کورٹ کے جج جسٹس شہزادو شیخ پر مشتمل ” لال مسجد کمیشن“ کے خلاف"Operation Sunrise" کی رپورٹ منظرِ عام پر آئی ۔رپورٹ میں پاک فوج کو بری اُلذّمہ قرار دیتے ہُوئے سابق صدر جنرل پرویز مشرف وزیرِاعظم شوکت عزیز اور اُس وقت( مسلم لیگ ق سمیت) اقتدار میں شریک اتحادی جماعتوں کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا لیکن غازی عبدالرشید کے بیٹے مسّمی ہارون اُلرشید نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے اکیلے جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف اپنے والد اور دادی کے قتل کا مقدمہ درج کرانے کی درخواست کی ۔حیرت ہے کہ مولانا عبدالعزیز نے اپنی والدہ کے قتل میں خود مُدّعی بننا پسند نہیں کِیا بلکہ اپنے بھتیجے کو آگے کر دیا ۔
جسٹس شہزادو شیخ کی رپورٹ میں واضح طور پر باور کرایاگیا کہ ” ہتھیاروں کے کم از کم استعمال کے نتیجے میں پاک فوج کو بھی جانی نقصان بھی اٹھا نا پڑا ،کیونکہ عسکریت پسند بلا اشتعال فائرنگ اور خود کش حملوں کے لئے مکمل طور پر تربیت یافتہ تھے ۔فوج صِرف اُس وقت فائرنگ کرتی تھی جب لال مسجد کے اندر سے فائر ہوتا ۔(گویا فوج کو آپریشن کرنے کے لئے ، عسکریت پسند وں نے ہی مجبور کِیا )۔ حیرت تو یہ ہے کہ جسٹس شہزادو شیخ تو لال مسجد آپریشن میں جاں بحق ہونے والے فوجی اہلکاورں کو ” شہید “ تسلیم کرتے ہیں لیکن آپریشن کے بعد 12جولائی2007ءکو اسلام آباد میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ( اُن دنوں فعال) متحدہ مجلسِ عمل کے صدر قاضی حسین احمد (مرحوم)سیکرٹری جنرل مولانا فضل الرحمٰن اور رُکن مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا تھا کہ”لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر بمباری اور امریکی مفادات کی حفاظت کرنے والے پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کو شہید تسلیم نہیں کِیا جاسکتا“۔(بھائی لوگو!آپ پاک فوج کے جانبازوں کو شہیدتسلیم کریں یا نہ کریں ،اُنہیں کوئی فرق نہیں پڑتا)۔
لال مسجد آپریشن کے بعد ہی مُلک میں دہشت گردی کو فروغ مِلا تھا۔ مولانا عبدالعزیز نے6اپریل2007ءکو ہی یہ پیش گوئی کر دی تھی ۔مولانا عبدالعزیز اب بھی لال مسجد کے خطیب ہیں ۔بظاہر پُر امن اور پہلے کی طرح مراعات یافتہ۔حیرت ہے کہ وہ اپنی والدہ محترمہ کے قتل میں خود مُدعی نہیں بنے۔ جنرل(ر) پرویز مشرف دودھ کے دُھلے نہیں ہیں ۔ انہیں اُن کے بعض اقدامات پر قانون کی گرفت میں ضرور لایا جائے لیکن لال مسجد آپریشن کے خلاف کوئی بھی عدالتی انتظامی یا جذباتی فیصلہ کرنے سے پہلے ،پارلیمنٹ یا سپریم کورٹ سے فیصلہ کرا لیا جائے کہ اگر آئندہ کسی مسجد کا خطیب یا مدرسے کا منتظم غیر قانونی طور پرجمع کئے گئے عسکریت پسندوں کے بَل پراپنی مرضی کی شریعت اور عدالتیں قائم کرنے کا اعلان کر دے تو اُس کے خلاف فوجی آپریشن کرنے کا حُکم دینے پر ،صدرِ مملکت یا وزیرِاعظم کے خلاف قتل کا مقدمہ چلایا جائے گا یا نہیں؟۔ فی الحال تو لال مسجد آپریشن کے بارے میں تفتیش کرنے والی مشترکہ ٹیم نے فیصلہ کر دِیا ہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف بے قصور ہیں ۔