ایک دن نبی کریمؐ کا گزر مدینہ پاک کے بازار سے ہوا۔ دونوں طرف بازار سجا ہوا تھا۔ ایک شخص گندم کا ڈھیر سجانے بیٹھا تھا۔ گندم اتنی اچھی تھی کے دور سے اپنے گاہکوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہی تھی۔ حضورؐ کے قدم مبارک بھی اس کے پاس جاکر رک گئے۔ آپ نے گندم میں ہاتھ ڈالا تو وہ اندر سے گیلی تھی۔ آپؐ نے گندم ہاتھ میں پکڑ کر فرمایا! کہ تم نے ایسا کیوںکیا، اس نے جواب دیا، اچھے منافع کمانے کے لئے۔ تو حضور نے فرمایا! جس نے سچائی کو جھوٹ کے پردے میں چھپایا وہ ہم میں سے نہیں۔ حضور پاک ؐ نے جھوٹ بول کر مال بیچنے اور ناجائز منافع کمانے والوں کو اپنی امت میں سے خارج کر دیا۔ تجارت ایک مقدس پیشہ ہے جس سے انسان بہترین طریقے سے ملک و قوم کی نہ صرف خدمت کرسکتا ہے بلکہ اس کی ترقی میں بھی معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ ابوسعیدؓ فرماتے ہیں میں نے سنا سرکار دو عالم نے فرمایا، سچے اور امانت دار و دیانت دار تاجر کا حشر نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوگا۔ حضور سرور کائنات نے ایک جگہ اور فرمایا جو تاجر مشقت و تکلیف اٹھا کر کاروبار کرتا ہے اور قیمت میں زیادتی نہیں کرتا، اس کا درجہ صدقہ کرنے کے برابر ہے۔ یہاں تک کہ رزق حلال کو عبات قرار دیا گیا۔ ہر معاشرے کے کچھ مذہبی اصول اور رواج ہوتے ہیں۔ جوانکی تعلیمات کا حصہ یا انکے بڑوں کے تجربات کا نچوڑ ہوتے ہیں۔ جب معاشرے اپنی اصل سے روگردانی کرتے ہیں تو ان کی تباہی پھر دور نہیں ہوتی۔ حضرت شعیبؑ کی قوم کو اللہ تعالیٰ نے کم ناپ تول کرنے اور ناجائز منافع خوری کی وجہ سے قیامت تک کے لئے عبرت کا نشان بنایا دیا۔ جس معاشرے میں ناپ تول میں کمی اور منافع خوری عام ہو جائے اللہ اس سے خیر کو اٹھا لیتا ہے۔ تجارت میں سچائی اور دیانت وہ نعمت تھی جس کے بل بولتے پر مسلمان تاجر جہاں بھی گئے دنیا میں اسلام کا بول بالا کر کے آئے۔ اسلام بہت حد تک ان ایمان دار تاجروں کے حسن سلوک اور اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ستھرا مال بیچنے کے وجہ سے پھیلا ہے۔ ذخیرہ اندوزی کرنا، ملاوٹ کرنا، ناپ تول میں کمی، کسی خریدار کو عیب والا مال بیچنا، جھوٹی قسم کھا کر مال بیچنا یا عمدہ چیز بتا کر گھٹیا چیز بیچنا، زخیرہ اندوزی کر کے چیزوں کی مصنوعی قلت پیدا کرنا۔ اور پھر چیزوں کو مہنگے داموں بیچنا، یہ وہ تمام چیزیں ہیں جن کی دین اسلام میں سختی سے نہ صرف ممانعت ہے بلکہ ایسے لوگوں کے لئے جہنم میں ایک الگ حصہ جس کا ذکر سجین کے نام سے کیا گیا ہے۔ حضرت عمر فاروق ؓفرماتے ہیں نبی کریمؐ نے زخیرہ اندوزی کرنے والے کو ملعون قرار دیا۔ ملاوٹ کرنے والوں کے لئے رسول کریمؐ نے فرمایا جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں ہے (مسلم)۔ ملاوٹ اور ناپ تول میں کمی کرنے والوں کو حضورؐ اپنی امت سے خارج دیں اور ہم اسی شعار کو اپنالیں۔ ملاوٹ کرنا، کم ناپ تول کرنا اور پوری قیمت وصول کرنا، اچھی مال دکھا کر خراب مال بیچنا کیا آج ہمارے معاشرے میں یہ چیزیں عام نہیں ہوگئی ہیں؟ یہ چیزیں اب ایک مافیا کی صورت اختیار کر گئی ہیں۔
آج ہم زیادہ قیمت ادا کر کے بھی اچھی اور صاف ستھری چیزوں سے محرم ہیں۔ وہ سبزی فروش ہی کیا ہے جو ایک کلو کی سبزی میں خراب اور گلی سڑی سبزی ڈالنانہ بھولے، پھل فروشوں کا بھی یہی حال ہے۔ روٹی کی قیمت زیادہ ہوتی جا رہی اور وزن کم، پیکنگ میں آنے والی چیزوں کے ساتھ بھی یہ ہی معاملہ ہے۔ چیزوں کی قیمتیں دن بدن بڑھ رہی ہیں اور ان کے مقدار کم ہوتی جا رہی مجھے حیرت ہوتی ہے بچوں کے فوڈ سپلیمنٹ جو آج سے چند سال پہلے انتہائی مناسب قیمت میں ایک بھرے ہوئے ڈبے کی صورت میں ملتے تھے۔ آج دوگنی قیمت ادا کر کے اس کا آدھا ڈبہ خالی خریدا جاتا ہے۔ اسی طرح صابن جو 20 روپے میں آتا تھا آج وہ صابن 50 روپے کا ہے اور اپنے حجم میں سکڑتا جا رہا ہے۔ ریڈی ٹو کک کا وہ پیکٹ جس سے 3 افراد کھا سکتے تھے آج دوگنی قیمت پر وہ بھی ایک فرد کے لیے تیار کیا جاسکتا ہے۔ اسکے علاوہ دالوں سے لے کر آٹے اور مصالحہ جات تک میں ملاوٹ کی جاتی ہے، خالص دودھ نایاب اور دودھ ناپنے کے پیمانے چھوٹے، وہ تمام باتیں اور رذائل اخلاق ہم میں عام ہوگئے جن پر نبی کریمؐ نے لعنت بھیجی تھی یا نا پسند فرمایا اورجن کے لئے اللہ نے دوزخ کا ایک الگ حصہ بھی رکھا ہے۔ ان بیماریوں کو معاشرے میں پھیلنے دیا گیا، انکی روک کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا جاتا، زخیرہ اندوزی جیسی لعنت ہمارے معاشرے میں ہوگئی ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ کنزیوبرز کی شکایات کو دور کرنے کے لئے ایک فعال اور مضبوط ادارہ ہو، جو یونین کونسل کی سطح پر کام کرے۔ قیمتوں کو قابوں میں لائے۔ ٹیلفونک سروس دی جائے جس پر لوگ اپنی شکایت درج کروائیں۔ خراب مال بیچنے والوں کو موقع پر پکڑ کر سزا دی جائے اور انکی دکانیں سیل کر دی جائیں۔ شکایات کا اندراج اور کورٹس تک رسائی کو آسان بنایا جائے۔ اس ادارہ کے پاس کیا خاص فورس ہو جو ملاوٹ کرنے کے والے مافیا کو بے نقاب کرے۔ زخیرہ اندوزی کی حکومتی سطح پر حوصلہ شکنی کی جائے اور اسے تغریری جرم بنایا جائے۔ اشیاء کی مصنوعی قلت پیدا کرنے والے چور اور ڈاکو ہیں۔ جو عوام کے حق پر ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو کڑی سے کڑی سزا دینی چاہئے۔ لوگوں کو سزا نہیں ملتی انکے دلوں سے سزا کا خوف نکل جاتا ہے۔ اور وہ سر عام دھوکہ کا کاروبا کرتے ہیں قانوں نافذ کرنے والے اداروں کو مضبوط کر دیا جائے تو کافی حد تک نظام کو درستی کی راہ پر ڈالا جاسکتا ہے۔