.... تمام چہرہ اگر کوئی بے نقاب کر دے؟

دوقومی نظریہ کیا ہے۔ نظریہ پاکستان کیا ہے۔ ہمارے بہت سے سکہ بند دانشوروں کی سمجھ میں آ گیا ہو گا جو اپنی کج بحثی کے باعث ہمیشہ سوشل میڈیا پر آ کر بے تکے سوالات کرنے کے عادی ہیں۔ دو قومی نظریہ کی تشریح اور ابلاغ عام کرنے کے لیے تمام قوموں کو نریندر مودی کا شکر گزار ہونا چاہیے اور پورے پاکستانیوں کو باری باری جناب قائداعظم محمد علی جناح کے مزار پر جاکر سلامی پیش کرنی چاہیے۔ آج بفضل تعالیٰ ہم اس قابل ہوئے کہ لوگ ہمیں پاکستانی کہتے ہیں اور کچھ لوگوں کو پاکستان کا ”ہوا“ ڈراتا بھی رہتا ہے۔ سارک ملکوں میں پاکستان کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے کیونکہ پاکستان بھارت کو برابری کی سطح پر جواب آں غزل پیش کرتا ہے جبکہ باقی کے ملک سرحدی مصلحتوں کے پیش نظر کھل کر بات نہیں کر سکتے۔

گائے کا گوشت تو یونہی ایک مسئلہ بن گیا ہے۔ مسلم کشی کے لیے تو محض بہانہ درکار ہوتا ہے۔
پاکستان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ اب بھارت کے مسلمانوں کو بات بات پر طعنہ ملنے لگا ہے کہ پاکستان چلے جائیے.... ہے نہ پاکستان ایک حقیقت.... اب پاکستان ڈراوے اور دھمکاوے کے کام آنے لگا ہے۔ ہے نا پاکستان ایک بڑا ملک۔ مگر پاکستان کے اندر بعض رہنے والوں کو پاکستان ایک بڑا اور زبردست ملک کیوں نظر نہیں آتا؟ اور وہ لوگ زبردست کو زیردست بنانے پر کیوں تلے ہوئے ہیں۔
پہلے ہم آپ کو انڈین اخبار ”ہند سماچار“ 20 ستمبر کی شائع شدہ ایک دلچسپ خبر کا تراشہ پیش کرتے ہیں۔ ”گجرات کے شہر احمد آباد کو عجیب طریقے سے بانٹا گیا ہے۔ ہندو بستیوں کو ہندوستان اور مسلم بستیوں کو پاکستان یا منی پاکستان کا نام دیا گیا ہے۔ ان بستیوں کو بانٹنے والے روڈ کو بارڈر قرار دیاگیا ہے۔ شہر کے جہاں پورہ میں مسلم بستی کو منی پاکستان کا نام دیا گیا ہے۔ اس بستی کو ہندو علاقہ ریجال پور سے بانٹنے والے روڈ کو واہگہ بارڈر کہا گیا ہے۔ منی پاکستان میں رہنے والے مسلم پریواروں کو بجلی کے جو بل ملتے ہیں ان کے اوپر چھوٹا پاکستان یا لٹل پاکستان جیسے لفظ لکھے ہوتے ہیں۔ یہ ایک نارمل بات ہے جو ان علاقوں میں رہتے ہیں وہ لوگ خود کو پاکستان کا بتاتے ہیں اور یہ بات کہنے کے وہ عادی ہو گئے ہیں، بلکہ آٹو رکشہ والے بھی سواریاں بٹھانے سے پہلے پوچھتے ہیں۔ ہندوستان جانا ہے کہ پاکستان.... اور اسی حساب سے کرایہ طے کر کے مسافروں کو بٹھاتے ہیں۔ کیا یہ مذہبی انتہا پسندی کی علامت ہے۔ یا واقعی پاکستان کو عافیت کدہ سمجھا جا رہا ہے۔
بعض انتہا پسند سیاسی و مذہبی لیڈروں کا خیال ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی آبادی جو خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے۔ اس لیے ان کے مطالبات بھی، اور اثرورسوخ بھی بڑھ رہا ہے۔ ان کی آبادی کو تو کم نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے مقابلے میں ہندوﺅں کی آبادی کو بڑھاوا دینا چاہیے۔ یہی مسئلہ انہیں کشمیر میں بھی درپیش ہے۔ کیونکہ وہاں ہمیشہ حق خود ارادیت کا شور اٹھتا ہے۔ مودی حکومت چاہتی ہے کہ کشمیر کے اندر زیادہ سے زیادہ برہمنوں کو آباد کر دیا جائے اور انہیں زیادہ بچے پیدا کرنے پر لگا دیا جائے تاکہ ہندو اکثریت میں ہو جائیں اور پھر ووٹ کی طاقت کو استعمال کیا جائے۔
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں بھی بڑھتی ہوئی آبادی نئے مسائل کو جنم دے رہی ہے اور بھارت میں بھی، جہاں تعلیمی شرح اتنی کم ہو، صحت کے معاملات اپنی جگہ ہوں۔ ہر شہری تک زندگی کی باقی سہولیات نہ پہنچ رہی ہوں ان ملکوں میں آبادی پر کنٹرول کیا جانا چاہیے۔ کسی زمانے میں چین نے ایک بچہ پیدا کرنے کی شرط لگا دی تھی مگر اب چین نے اپنے عوام کو دو بچے پیدا کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ غالباً وہ اپنے وسائل میں خود کفیل ہو گیا ہے۔
مگر دلچسپ صورت حال بھارت میں پیدا ہو گئی ہے۔ دیکھیے ان کے سیاسی لیڈر مسلم اکثریت سے گھبرا گئے ہیں اور اس خوف سے انڈیا میں مزید منی پاکستان نہ بن جائیں انہوں نے کس قسم کے مشورہ دینے شروع کر دئیے ہیں۔
7 جنوری 2015ءکو بھاجپا ایم پی ساکشی مہاراج نے کہا دھرم کی حفاظت کے لیے ہندو مہلاﺅں کو کم سے کم چار بچے پیدا کرنے چاہئیں۔
19 جنوری کو بدریکا آشرم کے شنکر آچاریہ شری وسو دیو آند سرسوتی نے کہا ”ہندوﺅں کی ایکتا کی وجہ سے ہی نریندر مودی بھارت کے پردھان منتری بنے ہیں۔ اگر یہ صورت حال قائم رکھنی ہے تو ہر ہندو پریوار کو کم از کم دس بچے پیدا کرنے چاہئیں۔
4اپریل کو وی ایچ پی کے جنرل سیکرٹری چمت رائے نے کہا ہندوﺅں کو زیادہ بچے پیدا کرنے چاہئیں نہیں تو ملک پر مسلمانوں کا قبضہ ہو جائے گا۔ اگر ہندو ایک بچے پہ خوش ہیں تو 2050ءمیں اس کا نتیجہ بھگتنا پڑ جائے گا۔“
7 ستمبرکو وشوہندو پریشدکے بین الاقوامی ایکٹنگ چیئرمین پروین توگڑیا نے کہا ہم ہندو خاندانوں کا علاج کروانا چاہتے ہیں جو کچھ بیماریوں کی وجہ سے بچے پیدا کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ ہم ان کا علاج کروا کے انہیں چار بچے پیدا کرنے کی ترغیب دیں گے۔“
2 فروری کو بھاجیا لیڈر سادھوی پراچی نے ایک پروگرام میں بولتے ہوئے کہا ”ہر ہندو کو چار بچے پیدا کرنے چاہئیں۔
آج کی دنیا میں ہر شخص خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم، بہترین صحت، مناسب رہائش اور روزگار کے وسائل سے فیض یاب کرنا چاہتا ہے۔ اپنے لوگوں کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے کے لیے سب سے پہلے ملک میں امن و امان ہونا چاہیے۔ ایک دوسرے کے معاملات میں دخل اندازی بند ہونی چاہیے۔ ہر ملک کو اپنی سرحدوں کے اندر رہ کر پہلے اپنے معاملات اور وسائل کو بہتر بنانے کی سبیل کرنی چاہیے۔
بہترین ملک وہ ہوتے ہیں جن کی دست برد سے ان کے ہمسائے محفوظ ہوں۔ کسی ملک کی نفری اس کی بڑائی کی ضامن نہیں ہوتی۔ تعلیم کا مقابلہ تعلیم سے ہوتا ہے اور تدبیر کا مقابلہ تدبیر سے ہوتا ہے۔ یہاں آپ سنگا پور کی مثال لے سکتے ہیں۔


]

ای پیپر دی نیشن