ماضی کی بعض کوتاہیوں کا خمیازہ عدلیہ اوروکلا کو بھگتنا پڑا

اسلام آباد (اے پی پی) چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا ہے کہ بنچ اور بار انصاف کی فراہمی کے اکٹھے جزو ہیں، انصاف کی فراہمی عدلیہ اور بار کی یکساں ذمہ داری ہے۔ ماضی میں ہونیوالی بعض کوتاہیوں کا خمیازہ عدلیہ اور وکلا دونوں کو بھگتنا پڑا، غلطیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ خود احتسابی کیلئے بنچ اور بار دونوں کو کردار ادا کرنا چاہئے اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ سپریم کورٹ میں آرٹیکل 209 کے تحت دائر درخواستوں پر موثر کارروائی ہو گی، 90 فیصد درخواستیں زائد المیعاد ہونے کے باعث غیر موثر ہو چکی ہیں۔ سپریم کورٹ میں وکالت کے لائسنس کیلئے ہائی کورٹ کی 10 سالہ پریکٹس کی شرط کو 7 سال کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں نئے وکلاء کو انرولمنٹ سرٹیفکیٹ تقسیم کرنے کی تقریب سے خطاب میں کیا۔ چیف جسٹس نے جوڈیشل کمپلیکس میں اسلام آباد بار کونسل کے دفتر کا افتتاح بھی کیا۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ ججز ریٹائر ہو جاتے ہیں مگر ادارہ قائم رہتا ہے۔ خود احتسابی کیلئے بنچ اور بار دونوں کو کردار ادا کرنا چاہئے۔ بار کونسلز اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں اور ہمارے درمیان کالی بھیڑوں کی نشاندہی کر کے انہیں اس مقدس پیشے سے دور رکھا جائے۔ بنچ اور بار ایک ہی سسٹم کا حصہ ہیں اور انصاف کی فراہمی کے اکٹھے جزو ہیں جو ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ انصاف کی فراہمی نہ صرف عدلیہ بلکہ بار کے لئے بھی اتنی ہی اہم ذمہ داری ہے۔ بنچ اور بار دونوں کو صبر و تحمل سے کام لینا چاہئے۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...