نو اکتوبر کی رات کودفتر سے فارغ ہو کر گھر پہنچا تو بیگم اور بچوں کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ بہت گھبرائے ہوئے تھے۔ میں نے وجہ پوچھی تو بیگم نے بتایا کہ ’’ہمارے ساتھ ڈکیتی ہو گئی ہے۔ موٹر سائیکل پر سوار مسلح ڈاکو گن پوائنٹ پر زیور چھین کر لے گئے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ 15 پر کال کی ہے یا پولیس کو اطلاع دی ہے بیگم نے جواب دیا کہ 15 پر کال کرنے یا پولیس کو اطلاع دینے کا کوئی فائدہ نہیں، تین سال قبل جو ڈکیتی ہوئی اور جس میں آپ بھی میرے ساتھ تھے۔ اس کا تو آپ نے تھانے میں مقدمہ بھی درج کرایا تھا کیا فائدہ ہوا؟ اس مقدمے کے بعد میرے ساتھ ڈکیتی کی یہ تیسری واردات ہے۔ میں نے بیوی بچوں کو تسلی دی اور کہا کہ اب سو جائو کچھ نہیں ہوتا۔ میری تسلیوں کے باوجود جب ذراسی بھی آہٹ ہوتی تو بیوی بچے گھبرا کر اٹھ جاتے۔ میری بیٹیاں بار بار بتاتیں کہ ابو ایک ڈاکو نے پسٹل امی کے ماتھے پر رکھ دیا تھا۔ اگر وہ گولی چلا دیتا تو پھر میں نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا کہ ڈاکو صرف نقدی اور زیورات لوٹتے ہیں گولی نہیں چلاتے۔ میری تسلیوں کی وجہ سے آخر کار گھر والے سو ہی گئے۔ صبح اٹھے تو میری چھوٹی بیٹی جو زیادہ خوفزدہ تھی۔ اخبار لے آئی اور کہنے لگی آپ تو کہہ رہے تھے کہ ڈاکوئوں کو صرف پیسوں اور زیورات سے غرض ہوتی ہے گولی نہیں چلاتے، یہ خبر پڑھ لیں۔ اس خبر کی سرخی کچھ اس طرح تھی۔ ’’لاکھوں کے ڈاکے، شاد باغ میں مزاحمت پر موٹر سائیکل سوار، اور سندر میں ٹی وی مکینک قتل، گلشن راوی میں سلیم کے گھر سے 20 لاکھ، ہربنس پورہ کے خاندان سے 5 لاکھ، گوالمنڈی میں شہباز اور اس کی بیوی سے 3 لاکھ کی نقدی اور زیوارت چھین لئے۔ یادر رہے کہ خبر میں مذکورہ ڈکیتی کے متاثرین کے علاوہ میرے اہل خانہ جیسے کئی خاندان ایسے ہوں گے جنہوں نے خبر لگوانا مناسب نہیں سمجھا اوراپنے اہل خانہ کو طفل تسلیاں دیتے ہوئے سو گئے ہوں گے میں نے اہل خانہ کو پھر تسلی دی اور تیار ہو کر دفتر پہنچ گیا وہاں پر ٹی وی چل رہا تھا جس پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم میاں نواز شریف کی گورنر ہائوس کے دربار ہال میں صحافیوں کے ساتھ گفتگو براہ راست دکھائی جا رہی تھی۔ وزیراعظم نواز شریف اپنے کارناموں خصوصاً ایک روز قبل ہونے والے بھکی پاور پلانٹ کی تعمیر کے افتتاح اور اس کی ممکنہ پیداوار کے بارے میں بریفنگ دے رہے تھے اور اکثر درباری صحافی میاں نواز شریف کی باتوں پر سردھن رہے تھے۔ محض رسم پوری کرنے کے لئے پندرہ بیس صحافیوں میں سے صرف دو تین صحافیوں نے سوال کئے اور وہ سوال بھی ایسے تھے جیسے وزیراعظم کو ان کی عظیم الشان کارکردگی پر خراج تحسین کے گلدستے پیش کر رہے ہوں ان صحافیوں میں سے کس کو یہ پوچھنے کی توفیق تو نہ ہوئی کہ ’’جناب وزیراعظم آپ بھکی پاور پلانٹ کی تعمیر کے افتتاح اور اس کے ممکنہ فوائد پر تو بڑی تفصیل سے روشنی ڈال رہے ہیں۔ آپ کو کچھ یاد ہے کہ 2013ء کے الیکشن سے قبل آپ نے گوجرہ میں منعقدہ انتخابی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ نے عوام کی مت مار دی ہے۔ آپ ہمیں منتخب کریں ہم لوڈشیڈنگ کی مت مار دیں گے اڑھائی سال آ پکے اقتدار کے گزر چکے ہیں۔ آپ لوڈشیڈنگ کی مت کب ماریں گے۔ ڈکیتوں کی خبر وزیراعظم نے اپنی مصروفیات کے باعث شاید نہ پڑھی ہو، صحافیوں نے تو یقینا پڑھی ہوگی۔ ان کا یہ فرض بنتا تھا کہ وزیراعظم کے نوٹس میں لاتے کہ لاہور میں امن و امان کی حالت بہت خراب ہے روزانہ لاکھوں کے ڈاکے پڑ رہے ہیں اور مزاحمت پر نہتے شہریوں کو قتل کیا جا رہاہے۔ یہ میٹروبس، اورنج ٹرین اور دیگر ترقیاتی منصوبوں سے فائدے عوام اسی صورت میں حاصل کریں گے جب ان کی جانیں محفوظ ہوں گی۔ ان جید صحافیوں میں سے کسی نے یہ سوال بھی نہ کیا کہ آپ نے انتخابی جلسوں میں مہنگائی اور بے روزگاری کم کرنے کے وعدے کئے تھے کیا وہ وعدے ایفا ہوئے ہیں۔ اس تقریب میں پنجاب کے وزیراعلیٰ جو عوام کی خدمت کے جذبے سے اس قدر سرشار ہیں کہ خود کو وزیراعلیٰ کہلوانے کی بجائے خادم اعلیٰ کہلوانا پسند کرتے ہیں کیا انہیں روزانہ اخبارات میں ڈکیتیوں اور مزاحمت پر قتل ہونے والے معصوم شہریوں کی خبریں نظر نہیں آتیں۔ اگر وزیراعلیٰ صحیح معنوں میں خادم اعلیٰ بننا چاہتے ہیں تو خلیفہ دوم حضر ت عمر فاروقؓ جنہوں نے آدھی دنیا پر حکومت کی، کے دور خلافت کو ذرا دیکھ لیں آپؓ کا طرز زندگی اس قدر سادہ تھا کہ درخت کے سائے تلے زمین پر لیٹ کر آرام فرماتے اور ان کے دور حکومت میں امن و امان کی جو صورتحال تھی اس کا اندازہ چرواہے والے مشہور واقعے سے لگایا جاسکتا ہے جو کچھ اس طرح ہے ’’جنگل میں ایک چرواہا اپنی بھیڑ بکریاں چرا رہا تھا کہ بھیڑیا اس کی ایک بکری لے گیا۔ اس نے بھیڑے کی اس جارحیت سے اندازہ لگا لیا کہ آج اس دنیا میں حضرت عمرؓ نہیں رہے اس نے کہا کہ اگر حضرت عمرؓ زندہ ہوتے تو اس بھیڑے کو میری بکری لے جانے کی جرات نہ ہوتی‘‘۔ اس واقعہ سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس دور میں جانور اس قدر محفوظ تھے تو انسان کس قدر محفوظ ہوں گے۔
خادم اعلیٰ صاحب! میٹروبس اورنج لائن جیسے منصوبوں کے مالی فوائد یقینا ہوں گے مگر یہ فوائد انسانی جانوں سے کم تر ہیں ان زندگیوں کی زیادہ فکر کریں جنہوں نے سفر کرنا ہے۔ خدارا امن و امان کی صورتحال پر توجہ دیں۔ وزراء اراکین اسمبلی، پولیس اور انتظامیہ کے علاوہ لاکھوں کی تعداد میں آپ کے پاس کارکن موجود ہیں انہیں علاقے تقسیم کردیں اور ان سے روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ لیں۔ رینجر نے روشیوں کے شہر کراچی کی روشنیاں تو واپس لوٹا دی ہیں اگر آپ تھوڑی سی توجہ دیں تو ڈاکوئوں سے خوف زدہ اور سہمے ہوئے زندہ دلان لاہور کی زندہ دلی بھی واپس لاسکتے ہیں اور ان کی زندگیاں بھی محفوظ بنا سکتے ہیں۔