وزیر اعظم کا دورہ امریکہ … … عوام کی نظر میں

شیر خدا حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم فرماتے ہیں :
’’سوئے ہوئے انسان کو تو پانی کی بوند یں بھی جگا سکتی ہیں لیکن جب کوئی قوم سوئی ہوئی ہو تو اسے جگانے کیلئے شہیدوں کے لہو کی ضرورت ہوتی ہے‘‘
کس قدر فکر انگیز فرمان ہے مگر ہمیں اپنی خبر نہیں۔ ہماری قوم گدھوں اور برائلر گوشت کھا کھا کر باطنی طور پر ’’بے حس ‘‘ہو چکی ہے اور واقعتا ہم خرافات میں کھو گئے ہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ابھی تک ہم قوم بھی نہیں بن سکے ۔ ہم تو ایک ہجوم کی طرح ہیں اور ہجوم میں سر تو ہوتے ہیںدماغ نہیں۔۔خاص طور پر ہماری اشرافیہ اور ہماری پارلیمان کے نمائندے جو لاکھوں خرچ کر کے اسمبلیوں میں جاتے ہیںتو صرف اقتدار کے مزے لوٹنے کیلئے یا صرف اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے ۔۔ بارہا الیکشن ہونے کے باوجود ہمارے عوام ڈھنگ کے نمائندے بھی نہیں چن سکتے اور اب تو سبھی برادریوں اور فرقوں میں تقسیم ہو کر صرف اور صرف اپنا وقتی ’’ مفاد‘‘ مدِ نظر رکھتے ہیں ۔کون نہیں جانتا انتخابا ت، بلدیاتی ہوں یا قومی و صوبائی اسمبلیوں کے،ہمیشہ روپے پیسے والے ہی اس میں حصہ لیتے ہیں اور جب کوئی پیسہ لگا کر نشست حاصل کرتا ہے تو سب سے پہلے وہ اپنا لگایا ہوا سرمایا واپس لینے کیلئے مصروف ہو جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جسے اقتدار کی ’’ لَت‘‘ پڑ جائے وہ ذلیل و رُسوا ہو کر بھی اقتدار کی بہتی گنگا میں نہانے کیلئے ہمہ وقت بے چین رہتا ہے۔ووٹ دینے والوں کو علم ہوتا ہے کہ یہ امید وار انتخابات کے بعد اگلے الیکشن تک ہمارے حلقے میں یا دسترس میں نہیں ہو گا مگر پھر بھی ہم ایسے ہی نمائندے منتخب کرتے ہیں۔اب تو میڈیا کا دور ہے اور خاص طور پر سوشل میڈیا آئینے کی طرح شفاف ہے۔ جس میں حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ سوشل میڈیا میں ہمارے لیڈروں اور نمائندوں کے بارے میں زبان ِ خلق کیا کہتی ہے سبھی جانتے ہیں۔اب تو عام آدمی بھی حقائق سے با خبر رہتا ہے۔اگلے روز واشنگ سٹینڈ پر کام کرنیوالے ایک شخص نے مجھے عجیب سوال کر دیا ۔ بولا: ’’سر جی! ابھی کچھ عرصہ قبل ہی تو وزیر اعظم میاں نواز شریف امریکہ سے ہو کر آئے تھے پھر دوبارہ کیوں اتنے لمبے سفر پر گئے ہیں، سنا ہے امریکہ بہت دور ہے۔ میاں صاحب اپنے پچھلے دورے ہی میں امریکی صدر سے ملاقات کر لیتے؟‘‘
سوال کرنیوالا گاڑی کے شیشے صاف کرتے ہوئے میرے جواب کا منتظر تھا۔ میں نے اپنے طور پر اسے سمجھانے کی کوشش کی لیکن محسوس ہو رہا تھا کہ وہ مطمئن نہیں ہو سکا۔ اصل با ت یہ ہے کہ ہمارے ہاں سب کچھ امریکہ ہی کوسمجھ لیا گیا ہے۔ ہمارا ہر سیاستدان امریکہ کی طرف دیکھتا ہے۔ لمحہ موجود میں سوشل میڈیا پر وزیراعظم کے امریکی دورے پر تبصرے جاری ہیں۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں اِس دورے کے حوالے سے اپنی اپنی ’’مفاداتی عینک‘‘ لگائے اظہارِ خیال کیا جا رہا ہے لیکن سوشل میڈیا ہر کسی کو وہ تلخ حقائق بھی دکھا دیتا ہے جو حکومتی ترجمانوں اور اینکروں سے قدرے مختلف ہوتے ہیں۔ ابھی تو میاں نواز شریف کے پچھلے دورے میں صدر اوباما سے ہونیوالی ملاقات میں ان کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی ’’کاغذی چٹوں‘‘ پر تنقید جاری تھی کہ میاں صاحب دوبارہ چٹوں سمیت اوباما سے ملاقات کرتے نظر آئے جس سے پاکستانیوں میں ایک بار پھر مایوسی پھیل گئی اور قوم حیران ہے کہ کسی بھی شخصیت سے ملاقات میں دوچار اہم امور پر کھل کر اعتماد کے ساتھ بات کر نا کیا کوئی بہت مشکل کام ہے؟ لیکن قوم کو کون سمجھائے کہ اہم بات خود اعتمادی کی ہوتی ہے جس کا فقدان ہمارے وزرائے اعظم میں نظر آتا ہے۔ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور میاں نواز شریف کی امریکی صدر سے ملاقات میں معمولی سا فرق تھا۔ یوسف رضاگیلانی ملاقات کے دوران زبر دستی مسکرانے کی کوشش کرتے رہے جبکہ میاں صاحب کی باڈی لینگوئج سے انکی خوداعتمادی متاثر نظر آئی۔ صرف ایک جیسا سوٹ اور ٹائی پہننے سے بات نہیں بنتی پھر ہاتھ کی ’’چٹیں‘‘ کیمروں سے بچانے کی کوشش بھی منظر عام پر آ گئی ہے۔ اخبارات بھلے وزیراعظم کی ’’چٹوں کو چھپاتے رہیں لوگ حقیقت جان لیتے ہیں کہ بقول عدم :…؎
اے عدم احتیاط لوگوں سے
لوگ منکر نکیر ہوتے ہیں
سوشل میڈیا بڑا بے رحم ہے۔ اِن دنوں صدر ایوب کی امریکی صدر سے ملاقات کی تصویر لگا کر، بعد میں آنیوالے وزرائے اعظم کی امریکی صدور سے ملاقاتوں کی تصاویر کا موازانہ کیا جارہا ہے۔ امریکی اور یورپی میڈیا میاں نواز شریف کے حالیہ دورے پر کچھ اور تبصرے کر رہا ہے جبکہ سرکاری ترجمان اس دورے کو نہایت کامیاب قرار دے رہے ہیں۔ پاکستانی اکثر سوچتے ہیں کہ ہمارے سیاست دان امریکی حکمرانوں کے سامنے اپنا اعتماد کیوں کھو بیٹھتے ہیں؟ ٹھیک ہے امریکہ سپر پاور ہے مگر کیا پاکستان ایٹمی قوت نہیں ہے؟ کم از کم امریکیوں کو یہ تو بتا یا جاسکتا ہے کہ اپنے بچے جمہورے (بھارت) کی حمایت سے باز آئے۔ باقی رہے دشمن تو ان کو ہم خود نکیل ڈالنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ بس امریکہ صاحب بہادر بیچ میں مت آئے۔ علامہ اقبال نے بھی میرکارواں کیلئے کچھ صفات بتا رکھی ہیں۔…؎
نگہ بلند ، سخن دلنواز ، جا ں پر سوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کیلئے
بس ہمیں ایک نڈر بے باک اور ذہین فطین، پُر اعتماد میر کارواں درکار ہے جو کبھی امریکہ جائے تو امریکی صدر اور اس کی ٹیم خود اسے ائرپورٹ پر لینے کیلئے منتظر ہو مگر ہمارے اہلِ اقتدارصرف اپنے عوام پر پولیس سے رعب ڈلوانے کیلئے ’’شیر‘‘ ہیں۔ اور عوام الناس ان کے ڈر اور شر سے محفوظ رہنے کیلئے اپنی موج میں مست ہیں۔ حکمرانوں کے نزدیک رعایا بہت خوش ہے اس لیے خاموش ہے۔ حالانکہ یہ قیاس درست نہیں ہے ۔کیونکہ :
لوگ بچوں کو یتیمی سے بچانا چاہیں
اور وہ شخص سمجھتا ہے رعایا خوش ہے

ای پیپر دی نیشن