بھارت پر جنگی جنون طاری ہے۔ طاقت کے نشے میں بدمست ہاتھی کی طرح پاکستان پر چڑھ دوڑنے کے بہانے تلاش کر رہا ہے۔ اس وقت جبکہ سانپ پھنکار رہا ہے، چاہیے تو یہ تھا کہ قوم کو ہوشیار رہنے کا سبق دیا جاتا اور اپنے گھوڑے ہر حملے سے نمٹنے کیلئے تیار رکھے جاتے مگر ہوا اسکے اُلٹ۔ ایک کالم نگار کو امن و آشتی کا پیغام دیتے ہوئے ”سمجھ نہیں آتی محض خاک کا بٹوارہ، حدِ سرحد کی تقسیم اور ذاتی مفادات کی خاطر کروڑوں معصوم جانوں کا خون کس مذہب کے جہاد کے زمرے میں آتا ہے۔“ ایک بات تو پکی ہے کہ کم از یہ اسلام کے زمرے میں نہیں آتا۔ کالم نگار کا مطلب صاف ظاہر ہے کہ انہیں ہندوستان کی تقسیم پسند نہیں آئی یا شاید انکے خیال میں 1947ءکے قتل عام کا ذمہ دار پاکستان تھا۔ بھارت کے دانشور بھی دن رات یہی ورد کرتے رہتے ہیں مگر انکی خواہش پوری ہوئی ہے اور نہ ہی انشاءاللہ پوری ہو گی۔ بھارت نے پاکستان کو پہلے قبول کیا تھا نہ اب کیا ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چُھپی بات نہیں کہ بھارت کے حکمران روز اول سے ہی پاکستان کو ختم کرنے اور سرحدی لکیر مٹانے کی فکر میں ہیں اور اس کےلئے عملی اقدام کر رہے ہیں۔ دشمنی کی یہ روش پاکستان نے نہیں بلکہ بھارت نے اپنائی ہوئی ہے۔ ہمارے حکمران تو انکے قدموں کو چُھوتے ہوئے، پرنام کرتے ہوئے، انہیں دعوتیں کھلا کر خوش کرنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں مگر وہ اپنے گفتار و کردار سے ایک طرف پاکستان کو تباہ کرنے کی سازش کر رہے ہیں تو دوسری طرف دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ”آمن کی آشا“ کا ڈھونگ رچا رکھا ہے اور دنیا جانتے بوجھتے ہوئے ان کی ہاں میں ہاں ملا رہی ہے اس لئے کہ
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرارِ بولہبی
امن و آشتی کا ڈھونگ رچانے میں بھارت خوفناک حد تک ماہر ہے۔ اس مقصد کیلئے وہ نہ صرف سیاستدانوں بلکہ دانشوروں کو بھی استعمال کرتے ہیں۔ ان مکار دانشوروں کی میٹھی زبان کا رُخ ہمارے بھولے بھالے دانشوروں کی طرف ہوتا ہے۔ شیریں کلامی کے یہ استاد زہرِ ہلال کو برگِ حشیش میں لپیٹ کر اپنی ساحرانہ گفتگو کے ذریعے پاکستانی دانشوروں کے ذہنوں میں اتار دیتے ہیں جو نہایت معصومیت سے انہی کے راگ الاپنا شروع کر دیتے ہیں۔ کاش یہ معصوم دانشور یہ جان سکتے کہ
نگہ دارد برہمن کار خود را
نمی گوید بکس اسرار خود ترا
بمن گوید از تسبیح بگدز
بدوش خود برد زنار خود را
اگر ان دانشوروں کو 1947ءکے مسلم قتل عام کا صحیح معنی میں ادارک ہوتا تو وہ کبھی ان جھانسوں میں نہ آتے۔ اگر درسگاہوں میں اُمتِ مسلمہ کے اس دردناک باب کو نوجوان طلبہ کی نگاہوں سے پوشیدہ رکھا گیا تو کم از کم دانشور بننے سے پہلے تو مسلمانوں کے خون میں ڈوبی ہوئی اس تاریخ کا مطالعہ کر لیا ہوتا۔ 1947ءمیں ہندوﺅں سکھوں نے مل کر بیس لاکھ مسلمانوں کا خون بہایا۔ یہ مسلمان جنگ نہیں کر رہے تھے، یہ فلسفہ جنگ کے قائل نہیں تھے، یہ لڑائی نہیں چاہتے تھے، یہ پُرامن لوگ تھے، ان میں کئی ہندوﺅں پر اعتبار کرتے ہوئے کانگریس کے ممبر تھے اور ہندوستانی قومیت پر یقین رکھتے تھے مگر ان کا قصور یہ تھا کہ وہ مسلمان تھے اس لئے ہندو سکھ انہیں برداشت کرنے کو تیار نہ تھے۔ وہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ مسلمان ہجرت کر جائیں بلکہ وہ تو مسلمانوں کو صفحہ ہستی نے نابود کر دینے پر تُلے ہوئے تھے اس لئے انہوں نے بھارتی حکومت کی اشیرباد کے ساتھ مسلمانوں کو اس بیدردی سے قتل کیا کہ ہلاکو اور چنگیز خان کی روحیں بھی کانپ اُٹھیں۔ ان ہزاروں اور لاکھوں مسلمانوں کی لاشوں کو گِدھ اور کتوں نے اس قدر کھایا کہ اور کھانے کی حاجت نہ رہی مگر ان مناظر کو نئے زمانے کے دانشور کہاں دیکھ سکتے ہیں۔ یہ وہ ہیں جن کی سوچ کو تعلیم کے تیزاب اور بھارتی پروپیگنڈے نے مسخ کر ڈالا ہے۔ نہ جانے اس کی وجہ گاندھی جیسے دشمنِ اسلام (جی ہاں! دشمنِ اسلام) اور منافقِ اعظم کا طلسمِ ابلیسی ہے یا لکشمی دیوی کی پُرکشش چمک۔ مگر یاد رکھیے کہ ....
مجھے مغلوب کرنے کو میرے دشمن کی جانب سے
کبھی نفرت کے تیر آئے کبھی چاہت کا دام آےا
ہندو سکھوں کے درندانہ مظالم کی کسک، اس کے گھاو¿، گہرے نقوش اور صدمے کو تو صرف وہی محسوس کر سکتے ہیں جن کے سامنے ان کی بیٹیوں کو برہنہ کرکے انکی عصمت دری کی گئی اور جکڑ کر کند چُھریوں سے ان کی چھاتیاں کاٹی گئیں، جن کے بیٹوں کو باندھ کر انکے سامنے انکے ہاتھ پاو¿ں کاٹے گئے فلک شگاف چےخےں بلند ہوتی رہیں، ہندو سکھ قہقہے لگاتے رہے اور وہ بے بس کچھ نہ کر سکے۔ اُن اندوہناک چیخوں کی کاٹ ان کی ماو¿ں سے پوچھئے جن کے معصوم بچوں کو ان کی گود سے چھین کر نیزے کی انی پر پرو دیا گیا، جن کے سامنے ان کے پھول جیسے معصوموں کو سیخوں پر چڑھا کر کباب کی طرح بھونا گیا۔ اس چوٹ کو اس بچے کے ذہن سے پوچھیں جسکے سامنے اسکی ماں کے پیٹ میں چُھریاں گھونپ کر چلتی گاڑی سے باہر پھینک دیا۔ اس بچے کے ذہن کو ٹٹول کر دےکھےں جس کے ماں باپ اور بہن بھائیوں کو مکان میں بند کر کے آگ لگا دی گئی اور وہ بھوسے کے ڈھیر میں چُھپا ہُوا ان کی دردناک چیخیں سُنتا رہا۔ اس ظلم و بے بسی کی کیفیت اس باپ سے پوچھیں جس کی ننھی سی معصوم بےٹی کے منہ سے سینے پر پاو¿ں رکھ کر ایک ہندو فوجی نے کچل دیا اور وہ کچھ نہ کر سکا۔ یہ لفاظی نہیں بلکہ بالکل ایسا ہی ہُوا اور ان حالات سے گزرے ہوئے کچھ لوگ ابھی تک موجود ہیں۔ اُمتُ مسلمہ کی ہزاروں بیٹیوں کی عصمتیں لُٹےں اور لُٹتی رہیں اور وہ ہندو سکھوں کی نسل بڑھاتے ہوئے کسی محمود غزنوی، کسی محمد بن قاسم کا انتظارکرتی ہوئی خالقِ حقےقی سے جا ملیں۔ انہیں کیا پتہ تھا کہ آج کے دانشور کہیں گے کہ انکے اغوا کرنے والوں کے ساتھ محبت سے رہو۔ یہ بے غیرت دانشور اور حکمران تو محبت سے رہنا چاہتے ہیں مگر ہم کیا کریں دشمن کے منہ کو تو خون لگ چکا ہے، وہ محبت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتا۔ معاف کیجئے مَیں اس مسلمان عورت کے الفاظ یہاں لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں جو پٹیالہ میں غیرت کی قتل گاہوں میں مدتوں سے ہندوو¿ں کے بچے جنم دے رہی تھی۔ ےہ پڑھنے کے بعد یہ دانشور اپنے گریبان میں منہ ڈال کر جھانکیں کہ کہیں وہ عورت صحیح تو نہیں کہہ رہی تھی۔ جب کئی سالوں کے بعد ایک پاکستانی اسکے قریب سے گزرا تو اس نے پنجابی زبان مےں کہا ”بے غیرت .... دَلّے نہ ہون کسے تھاں دے۔“ کیا اس کا اردو ترجمہ کر دوں؟ ہاں اگر چشمِ بصیرت ہی بند ہو چکی ہو اگر بے غیرتی کا لبادہ نارمل بن چکا ہو تو پھراس مسلمان عورت کی عصمت دری کرنے والوں کے ساتھ جنگ نہ کرنے کی قسم کھا کر قوم کو درسِ گوسفندی دیتے رہئے۔ (جاری)