زرداری صاحب پی ٹی آئی اور اربن سندھ

Nov 01, 2018

مخدوم محمد ذکی ایڈووکیٹ

پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ جناب آصف علی زرداری نے ایک اہم مگر دلچسپ بیان کے ذریعے توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اُنہوں نے اچانک PTI کی حکومت کو تبدیل کرنے کی بات کی ہے۔ اُنہیں گِلا ہے کہ وزیراعظم دولہا بن کر ہیلی کاپٹر میں سفر کرتے ہیں۔
یہ وہ زرداری صاحب ہیں جو نواز شریف کی نااہلی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خلاف پی ٹی آئی کی سخت ترین مُہم کے دوران نوازشریف کے خلاف تیر پر تیر چلا رہے تھے۔ ہم حیران ہیں کہ میاں نواز شریف کو اب بھی زرداری صاحب سے اُمیدیں وابستہ ہو سکتی ہیں۔؟ بات یہ ہے کہ اب خود زرداری صاحب کا گھیراؤ ہو رہا ہے وہ بڑی مشکل میں ہیں اور اُن کی گرفتاری جیسے امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔
وفاقی حکومت میں آصف علی زرداری کی پریس کانفرنس بے معنی نہیں ہے۔ زرداری صاحب کے مخاطب تین ہیں۔ نواز شریف، عمران خان اور " وہ"۔ ہماری رائے ہے کہ عدالت جس سمت چل پڑی ہے اُس کی واپسی ناممکن ہے۔ بعض معاملات پر عدالت نے نہ پہلے مصالحت اور مفاہمت کی نہ اب کرے گی۔ جنرل باجوہ قانون پر سختی سے پابندی کرنے والی شخصیت ہیں اُنہوں نے عدالتی معاملات سے گریز کی پالیسی اختیار کی ہے۔ تمام ادارے اور عمران خان نظامِ حکومت کی تبدیلی چاہتے ہیں ظاہر ہے یہ مشکل کام ہے اور مشکل سے یہی ہو رہا ہے پُرانے سیاسی حربے بے سود ثابت ہوں گے۔
انتخابی اعتبار سے سندھ اب تک پی پی کا ہے اور سچی بات یہ ہے کہ پی پی سمِٹ کر اب اندرونِ سندھ تک محدود ہو گئی ہے۔ اندرون سندھ بھی تبدیلی کی ایک بڑی لہر کے امکانات ہیں جو عمران خان بر پا کر سکتے ہیں۔ سیاسی تبدیلی کے لئے پی ٹی آئی کو صدر عارف علوی کی رہنمائی حاصل رہی ہے۔ اور شاید اب بھی رہے گی۔
ایسا لگ رہا ہے کہ نومبرکے آخری دو ہفتوں یا اکتوبر میں عمران خان سندھ کے ہنگامی دورے کرکے جلسے منعقد کریں گے۔ یہ سندھ کے عوام اور وزیراعظم عمران خان میں پہلا Interaction ہو گا۔ اصل میں پہلی بار اندرون سندھ عمران خان کی تبدیلی کے پروگرام کی جانب پُرجوش اندازمیں مائل ہوں گے۔ حیدرآباد کے علاقے قاسم آباد میں پی ٹی آئی کے لئے خیرمقدم کا مثبت عمل جاری ہے۔
اربن سندھ، کراچی، حیدرآباد، نوابشاہ سکھر اور میرپور خاص میں ایم کیو ایم کے واضح اثرات تھے۔ مگر اب یہاں کے عوام جن کی اکثریت مہاجروں پرمشتمل ہے۔ ایم کیو ایم کو واضح انداز میں خدا حافظ کہہ چکے ہیں۔ کراچی ، حیدرآباد اور ذکر کردہ علاقوں میں ایم کیو ایم اس کی ترکیبوں، اس کے نعروں اور تسلط کی واپسی کسی صورت ممکن نہیں ہے۔ فاروق ستار اکیلے رہ گئے ہیں۔ ان کی بے سروپا باتوں کا وزن ختم ہوا… وزیروں میں ایک تو ایم کیو ایم کے ہیں، مگر وہ بھی عوام میں یکسر ’’مقبول‘‘ نہیں ہیں۔ فروغ نسیم کے بارے میں شاید یہ جملہ درست ہو کہ ’’وہ کہاں سے ایم کیو ایم کے ہو گئے ہیں۔ ؟ خوش بخت شجاعت پی ٹی آئی کی جانب شاید جھکائو رکھتی ہیں۔ مگر جناب عارف علوی سے پرانا ایکشن محاذ راہ میں حائل نظر آتا ہے۔ خوش بخت کے کراچی میں اپنے اثرات ہیں اور وہ مزاجاً پی ٹی آئی قسم کی ہیں۔ یوں بھی اب کراچی پی ٹی آئی کا ہو گیا ہے۔ ہم حیران ہیں کہ سیاسی منظر وہی اتنی تبدیلی کے باوجود حیدرآباد میں پی پی آئی کا وہ طوفان دکھائی نہیں دیتا۔ 2018ء کے الیکشن میں بھی حیدرآباد واحد شہر ہے جو ایم کیو ایم کے اثرات کا مکمل مظاہرہ کر سکا۔ حیدرآباد کے عوام میں تبدیلی کی لہر ہے اگر خود پی ٹی آئی کی قیادت جو ہائی لیول کی ہو حیدرآباد پردرست انداز سے توجہ فرمائے تو یہ ثابت ہوچکا ہے کہ کراچی ایم کیو ایم کے موجودہ لیڈروں کے دعوئوں کے باجود اب ایم کیو ایم کانہیں رہا۔ 1970ء میں پہلے الیکشن منعقد ہوئے تو کراچی اور حیدرآباد نے پی پی کے مقابلے میں واضح فیصلہ مذہبی جماعتوںکے حق میں دیا۔ مگر مذہبی جماعتوں کے عروج کا سورج ایم کیو ایم نے تاریک بنا دیا جو اب تک روشنی سے محروم ہی رہا۔ 2018ء میں کراچی ایم کیو ایم کو داغ مفارقت دے چکا ہے۔ ’’مہاجر‘‘ کا نعرہ سیاسی طورپر اپنی کشش کھوبیٹھا ہے۔ بہت سارے پجاری اس بت کو تلاش کر رہے ہیں ،مگر عمران خان نے مہاجر کے بت کو توڑ پھوڑ دیاہے۔ مہاجروں کو مہاجر کا نعرہ محض تباہی اور بے پناہ قتل و غارت کے سوا کچھ نہ دے سکا۔ بانی ایم کیو ایم، پاکستان دشمن کیوں ہو گئے۔ اس کی وجوہات ہیں۔ ایم کیو ایم کی صف اول کی لیڈر شپ نے بے پناہ مراعات حاصل کیں، حرام دولت اکٹھا کی۔ نیب کیوں خاموش ہے؟ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ مہاجرپاکستان کے دیگر عوام اور قوم سے مختلف نہیں ان کے ساتھ ہیں۔ پی ٹی آئی نے سنجیدگی اور محبت سے کراچی اور اربن سندھ پر توجہ دی تو اہل کراچی وفا کرنے والے شہری ہیں یہ الگ بات ہے کہ کسی نے نہ وعدے نبھائے نہ وفا کی یہاں تک کہ خود ان کے اپنوں نے کراچی پورٹ سٹی ہے مگر اسے نظر انداز کیا گیا۔ کراچی کو بابائے قوم قائداعظم نے پاکستان کا دارالخلافہ بنایا، مگر فوجی حکومت نے دارالخلافہ ہی کراچی سے شفٹ کر کے پہلا اقدام کیا اور کراچی کو ضرب کاری لگائی۔ دوسری فوجی حکومت نے کراچی کی مرکزی حیثیت ہی ختم کردی اور اسے محض صوبائی شہر بنا دیا۔ کراچی کو وفاق کے تحت دینے کے بے شمار فوائد ہیں یہ مسئلہ توجہ چاہتا ہے زخم خوردہ کراچی پی ٹی آئی سے مسیحائی چاہتا ہے۔

مزیدخبریں